Monday 6 June 2016

ایک انسان کے حقوق کسی دوسرے انسان کے فرائض ہیں

آج کی دنیا حقوق کے مطالبے کی دنیا ہے۔ ہر شخص اپنا حق مانگ رہا ہے، اس کے لیے مطالبہ کر رہا ہے، تحریکیں چلا رہا ہے، مظاہرے کر رہا ہے، ہڑتال کر رہا ہے۔ گو یا کہ اپنا حق مانگنے اور اپنے حق کا مطالبہ کرنے کے لیے دنیا بھر کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور اس کے لیے باقاعدہ انجمنیں قائم کی جا رہی ہیں جن کا نام انجمن ِ تحفظّ ِحقوقِ فلاں رکھا جاتا ہے۔ لیکن آج کی دنیا میں "ادائیگی فرض" کے لیے کوئ انجمن موجود نہیں۔ کسی بھی شخص کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ جو فرائض میرے ذمّے عائد ہیں میں وہ ادا کر رہا ہوں کہ نہیں؟ مزدور کہتا ہے کہ مجھے میرا حق ملنا چاہیے۔ سرمایہ دار کہتا ہے کہ مجھے میرا حق ملنا چاہیے۔ لیکن دونوں میں سے کسی کو یہ فکر نہیں ہے کہ میں اپنا فرض کیسے ادا کروں۔ مرد کہتا ہے کہ مجھے میرے حقوق ملنے چاہیئیں، اور عورت کہتی ہے کہ مجھے میرے حقوق ملنے چاہیئیں۔ اور اس کے لیے کوشش اور جدّوجہد جاری ہے۔ لڑائ ٹھنی ہوئ ہے۔ جنگ جاری ہے۔ لیکن کوئ خدا کا بندہ یہ نہیں سوچتا کہ جو فرائض میرے ذمّے عائد ہو رہے ہیں وہ میں ادا کر رہا ہوں یا نہیں؟

الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسولﷺ کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے فرائض کی ادائیگی کی طوف توجّہ کرے۔ اگر ہر شخص اپنے فرائض ادا کرنے لگے تو سب کے حقوق ادا ہو جائیں۔ اگر مزدور اپنے فرائض صحیح طور سے ادا کرنے لگے تو سرمایہ دار اور مالک کے حقوق ادا ہو جائیں، اور اگر سرمایہ دار اور آجر اپنے فرائض ادا کرنے لگیں تو مزدور کے حقوق ادا ہو نے لگیں۔ اگر شوہر اپنے فرائض ادا کرنے لگے تو بیوی کے حقوق ادا ہو جائیں۔ اور اگر بیوی اپنے فرائض ادا کرنے لگے تو شوہر کے حقوق ادا ہو جائیں۔ شریعت کا اصل مطالبہ یہی ہے کہ ہر انسان اپنے فرائض ادا کرنے کی فکر کرے۔ اس سے دوسرے انسانوں کے حقوق خود بخود ادا ہونے شروع ہو جائیں گے۔

ماخوذ ازبیان "شوہر کے حقوق" از مفتی محمد تقی عثمانیؒ

No comments:

Post a Comment