Saturday 4 June 2016

اسراف (فضول خرچی) کیا ہے؟

حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ ایک "گھر" وہ ہوتا ہے جو "رہائش" کے قابل ہو۔ مثلاً جھونپڑی ڈال دی یا چھپر ڈال دیا، اس میں بھی آدمی رہائش اختیار کر سکتا ہے۔ یہ تو پہلا درجہ ہے جو بالکل جائز ہے۔ 

دوسرا درجہ یہ ہے کہ رہائش بھی ہو اور ساتھ میں "آسائش" بھی ہو، مثلاً پختہ مکان ہو، اور اس میں آسائش کے لیے کوئ کام کیا جائے مثلاً کوئ شخص اپنے گھر میں پنکھا اور بجلی اس لیے لگاتا ہے کہ تا کہ اس کو آرام حاصل ہو تو اس کی ممانعت نہیں ہے اور یہ اسراف میں داخل نہیں۔

تیسرا درجہ یہ ہے کہ مکان میں آسائش کے ساتھ "آرائش" بھی ہو۔ آرائش کا مطلب یہ ہے کہ دیکھنے میں اچھا معلوم ہو، دیکھ کر دل خوش ہو جائے، مثلاً ایک شخص کا پختہ مکان بنا ہوا ہے، پلاستر کیا ہوا ہے، بجلی بھی ہے، پنکھا بھی ہے، لیکن اس مکان پر رنگ نہیں کیا ہوا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ رہائش تو ایسے مکان میں بھی ہو سکتی ہے لیکن رنگ و روغن کے بغیر آرائش نہیں ہو سکتی، اب اگر کوئ شخص آرائش کے لیے مکان پر رنگ و روغن کرائے تو شرعاً وہ بھی جائز ہے۔

اس کے بعد چوتھا درجہ ہے "نمائش"۔ اب جو کام کر رہا ہے اس سے نہ تو آرام مقصود ہے، نہ آرائش مقصود ہے۔ بلکہ اس کام کا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگ مجھے بڑا دولت مند سمجھیں کہ اس کے پاس بہت پیسہ ہے، اور تا کہ اس کے ذریعے دوسروں پہ فوقیت جتاؤں اور اپنے آپ کو بلند ظاہر کروں۔ یہ سب "نمائش" کے اندر داخل ہے اور یہ شرعاً ناجائز ہے اور اسراف میں داخل ہے۔

ماخوذ از بیان "بیوی کے حقوق"، از حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانیؒ

No comments:

Post a Comment