Tuesday 28 June 2016

دنیا کو دین کیسے بنایا جائے؟

"اور الّٰلہ نے تمہیں جو کچھ دے رکھا ہے اس کے ذریعے آخرت والا گھر بنانے کی کوشش کرو، اور دنیا میں سے بھی اپنے حصّے کو نظر انداز نہ کرو، اور جس طرح الّٰلہ نے تم پر احسان کیا ہے تم بھی (دوسروں پر) احسان کرو، اور زمین میں فساد مچانے کی کوشش نہ کرو۔ یقین جانو الّٰلہ فساد مچانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔" (سورة قصص ۷۷)
ترجمہ از آسان ترجمئہ قرآن از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

اگر اس دنیا کو الّٰلہ تعالیٰ کے لیے استعمل کر رہے ہو تو پھر یہ دنیا بھی انسان کے لیے دنیا نہیں رہتی بلکہ دین بن جاتی ہے، اور اجر و ثواب کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اور دنیا کو دین کیسے بنایا جاتا ہے؟ اس کا طریقہ قرآن کریم نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے (جس کا ترجمہ اوپر درج کیا گیا ہے)۔

"اور الّٰلہ  نے تمہیں جو کچھ دے رکھا ہے اس کے ذریعے آخرت والا گھر بنانے کی کوشش کرو"
اس آیت میں قارون کا ذکر ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایک بیحد دولت مند آدمی تھا اور قرآن کریم نے فرمایا کہ اس کے اتنے خزانے تھے کہ ان کی چابیاں اٹھانے کے لیے پوری جماعت درکار ہوتی تھی۔ الّٰلہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو جو نصیحت کی گئ تھی اس کو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ اس نصیحت میں قارون سے یہ نہیں کہا گیا کہ تم اپنے سارے خزانوں سے دست بردار ہو جاؤ، یا اپنا مال و دولت آگ میں پھینک دو، بلکہ اس کو یہ نصیحت کی گئ کہ الّٰلہ تعالیٰ نے تمہیں جو کچھ مال و دولت، روپیہ پیسہ، عزّت شہرت، جو کچھ بھی دیا ہے اس سے اپنے آخرت کے گھر کی بھلائ طلب کرو، اس سے اپنی آخرت بناؤ۔

یہ جو فرمایا کہ "جو کچھ الّٰلہ  نے تم کو دیا ہے" اس سے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا کہ ایک انسان کتنا ماہر ہو، کتنا ذہین ہو، کتنا بھی تجربہ کار ہو، لیکن جو کچھ بھی وہ کماتا ہے وہ الّٰلہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ اس دنیا میں ایسے کتنے لوگ ہیں جو بے انتہا ذہین ہیں مگر ان کو مال حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا یا اس میں کامیابی نہیں ہوتی۔

"اور دنیا میں سے بھی اپنے حصّے کو نظر انداز نہ کرو"
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کو آخرت کیسے بنائیں؟ کیا جو کچھ ہمارے پاس مال ہے وہ سارا کا سارا صدقہ کر دیں؟ اس لیے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مال کو آخرت کے لیے استعمال کرنے کے معنی صرف یہ ہیں جو کچھ بھی مال ہے وہ صدقہ کر دیا جائے۔ لیکن قرآن کریم نے اگلے جملے میں اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں جتنا حصّہ تمہیں ملنا ہے، اور جو تہارا حق ہے اس کو مت بھولو، اور اس سے دست بردار مت ہو جاؤ، بلکہ اس کو اپنے پاس رکھو،

"اور جس طرح الّٰلہ نے تم پر احسان کیا ہے تم بھی (دوسروں پر) احسان کرو"
لیکن اس مال کے ساتھ یہ معاملہ کرو کہ جس طرح الّٰلہ تبارک و تعالیٰ نے تمہارے ساتھ احسان کیا کہ تم کو یہ مال عطا فرمایا اسی طرح تم بھی دوسروں کے ساتھ احسان کرو، دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔

آگے فرمایا کہ
"اور زمین میں فساد مچانے کی کوشش نہ کرو"
اس کا مطلب یہ ہے کہ الّٰلہ تبارک وتعالیٰ نے مال حاصل کرنے کے جن طریقوں کو حرام اور ناجائز قرار دیا ہے ان طریقوں کو اختیار کرنے سے قرآن کریم کی اصطلاح کے مطابق فساد پھیلتا ہے۔ چوری کر کے، ڈاکہ ڈال کے مال حاصل کرنا حرام ہے۔ کوئ شخص اگر یہ طریقہ اختیار کرے گا تو زمین میں فساد پھیلے گا۔ کوئ شخص دوسرے کا حق مار کر اور دوسرے کو دھوکہ یا فریب دے کر مال حاصل کرے گا تو اس سے زمین میں فساد پھیلے گا۔ ہم سب سے قرآن کریم کا مطالبہ ہے کہ مال ضرور حاصل کریں لیکن مال کو حاصل کرتے وقت اس بات کا دھیان رکھیں کہ مال حاصل کرنے کا یہ طریقہ حلال ہے یا حرام۔ اگر وہ حرام ہے تو پھر چاہے وہ کتنی ہی بڑی دولت کیوں نہ ہو ا سکو ٹھکرا دو، اور اگر حلال ہے تو اس کو اختیار کرو۔

تو پیغام صرف اتنا ہے کہ مال کمانے میں حرام طریقوں سے بچو، اور تمہاری حاصل شدہ دولت پہ جو فرائض عائد کیے گئے ہیں، خواہ وہ زکوٰة کی شکل میں ہو یا خیرات و صدقات کی شکل میں ہو، ان کو بجا لاؤ۔ اور جس طرح الّٰلہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ احسان کیا ہے تم دوسروں کے ساتھ احسان کرو۔ اگر انسان یہ اختیار کر لے، اور جو نعمت انسان کو ملے اس پر الّٰلہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے، تو دنیا کی ساری نعمتیں اور دولتیں دین بن جائیں گی۔

ماخوذ از بیان "کیا مال و دولت کا نام دنیا ہے؟" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment