Wednesday 24 May 2017

سورہٴ البقرہ: ۲۷۸

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوۡا مَا بَقِىَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏۔

"اے ایمان والو! الّٰلہ سے ڈرو اور اگر تم واقعی موٴمن ہو تو سود کا جو حصّہ بھی (کسی کے ذمّے) باقی رہ گیا ہو اسے چھوڑ دو۔ 

اس آیت کو شروع اس طرح کیا گیا کہ مسلمانوں کو خطاب کر کے اوّل  اتَّقُوا اللّٰہ کا حکم سنایا کہ الّٰلہ سے ڈرو، اس کے بعد اصل مسئلے کا حکم بتلایا گیا۔ یہ قرآن ِ حکیم کا وہ خاص طرز ہے جس میں وہ دنیا بھر کی قانون کی کتابوں سے ممتاز ہے کہ جب کوئ ایسا قانون بنایا جاتا ہے جس پر عمل کرنے میں لوگوں کو کچھ دشواری معلوم ہو تو اس سے پہلے اور اس کے بعد خدا تعالیٰ کے سامنے حاضری، ان کے سامنے اعمال کے پیش کیے جانے اور آخرت کے عذاب و ثواب کا ذکر کر کے مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں کو اس پر عمل کرنے کے لیے تیّار کیا جاتا ہے، اس کے بعد حکم سنایا جاتا ہے۔ یہاں بھی پچھلے عائد شدہ سود کی رقم کا چھوڑ دینا انسانی طبیعت پر بار ہو سکتا تھا، اس لیے پہلے  اتَّقُوا اللّٰہ فرمایا، پھر اس کے بعد حکم دیا کہ سود کا جو حصّہ بھی باقی ہے اس کو چھوڑ دو، اور آیت کے آخر میں فرمایا اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ، یعنی اگر تم ایمان والے ہو۔ اس میں اشارہ اس طرف کر دیا کہ ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ حکمِ خداوندی کی اطاعت کی جائے۔ (معارف القرآن)

تشریح: تقوٰی کا مفہومِ ِ اصلی یہی ہے کہ ایسا ڈر جس کی وجہ سے انسان کسی کام کو چھوڑ دے، کسی کام سے رک جائے۔ قرآن میں بار بار اس کی تاکید آئ ہے کہ تقوٰی پیدا کرو، الّٰلہ سے ڈرو۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جب انسان کے دل میں یہ احساس بیٹھ جاتا ہے کہ الّٰلہ تعالیٰ ہر وقت دیکھ رہے ہیں تو وہ خود بخود ان کی نافرمانی سے رکنے لگتا ہے۔ اس کی مثال بلا تشبیہ ایسی ہے کہ ہم بہت سے گناہ ایسے کرتے ہیں کہ اگر اس وقت والدین سامنے سے آ جائیں تو ہم ان کے سامنے وہ کام کرنے سے شرما جائیں، رک جائیں۔ الّٰلہ کی ذات تو والدین کی ذات سے بہت بڑی ہے۔ 

حضرت عمر رضی الّٰلہ عنہ جب خلیفہ تھے تو ایک دفعہ شہر سے باہر کہیں گئے۔ وہاں بھوک لگی تو کھانے کو کچھ تھا نہیں۔ وہاں ایک گڈریا بکریاں چرا رہا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس سے پوچھا کہ تمہاری اجازت ہو تو ہم ایک بکری کو دوہ کے اس کا دودھ پی لیں؟ اس نے جواب دیا کہ جناب، یہ بکریاں میری نہیں ہیں، ان کا مالک تو کوئ اور ہے، میں تو صرف معاوضے پر انہیں چراتا ہوں، اسی لیے میں مالک کی اجازت کے بغیر آپ کو ان کا دودھ دوہنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ حضرت عمر ؓ نے امتحاناً اس سے کہا کہ میں تمہیں ایک ایسی بات بتاتا ہوں جس میں تمہارا بھی فائدہ اور میرا بھی فائدہ۔ وہ یہ کہ تم ایک بکری مجھے بیچ دو۔ ہم اس کا دودھ پی لیں گے اور اسے کاٹ کر کھا لیں گے۔ ہمارا پیٹ بھر جائے گا اور تمہیں معاوضتاً رقم مل جائے گی۔ اگر مالک پوچھے تو کہہ دینا کہ بھیڑیا کھا گیا۔ اور بھیڑیے تو بکریوں کو کھاتے ہی رہتے ہیں اس لیے مالک کو تمہاری بات پہ شک بھی نہیں ہو گا۔ جب گڈریے نے یہ سنا تو بے اختیار یہ پکار اٹھا، "اے شہزادے! پھر الّٰلہ کہاں گیا؟"

یہ ہے اصل تقوٰی کہ جہاں کوئ دیکھنے اور نگرانی کرنے والا نہیں وہاں بھی دل میں احساس بیٹھا ہوا ہے کہ الّٰلہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں اس لیے حرام کھانے کا تصوّر بھی ذہن میں نہیں آتا۔ افسوس کہ جتنا ہم لوگ رسول الّٰلہ ﷺ کے زمانے سے دور ہوتے گئے اتنا ہم میں ایسا اخلاقی انحطاط آتا گیا کہ آج ہم میں سے بظاہر بہت دینی اور مذہبی لوگوں میں بھی وہ تقوٰی اور وہ حرام حلال کی فکر باقی نہ رہی جو اس زمانے میں ایک چرواہے میں تھی۔

No comments:

Post a Comment