Sunday 14 February 2016

تفصیلی توبہ

ایک طالب کے بیعت کی درخواست کرنے پرایک بزرگ نے فرمایا، "بیعت نہ ضروری ہے اور نہ ہی مقصود ہے۔ مقصود صرف توبہ اور اصلاح ہے۔ رہی بیعت تو وہ سنت ضرور ہے لیکن اس کے لیے جلدی کرنے کی ضرورت نہیں۔ "

 ۔ توبہ کا طریقہ بزرگ نے یہ بتلایا کہ پہلےتوبہ کرنے والا دو رکعت نفل پڑھے، اس کے بعد یہ دوتسبیحیں پڑھے،
ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفر لنا۔۔۔
استغفراللہ ربی من کل ذنب۔۔۔

پھر اس کے بعد اپنے الفاظ میں اللہ تعالی سے دعا مانگے کہ اے اللہ ، میں نے بہت گناہ کیے ہیں، میں ٓا پ کے سامنے توبہ کرنا چاہتا ہوں، اور یہ ارادہ رکھتا ہوں کہ ٓاٗندہ کبھی گناہ نہ کروں۔ میری ہمت بہت کمزور ہے اس لیے ٓاپ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے استقامت عطا فرمائیے۔

یہ تو ہوئ اجمالی توبہ۔ اس کے بعد تفصیلی توبہ کرے۔ اس کا طریقہ یوں ہے۔ حقوق دو طرح کے ہوتے ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ حقوق اللہ میں حساب لگائے کہ بلوغت کے بعد سے ٓا ج تک کتنی نمازیں چھوٹیں۔ ان کا ایک چارٹ بنائے اور روزانہ کی نمازوں کے ساتھ بجائے نفل پڑھنے کے ایک قضا نماز ادا کر لے۔ اور یہ وصیت بھی لکھ دے کہ اگر میں مر جائوں تو میری اتنی نمازوں کا فدیہ ادا کردیا جائے۔ اسی طرح جتنے روزے توڑے ہوں ان کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا اور جتنے چھوٹے ہوں وہ رکھنے ہوں گے یا موت کی صورت میں ان کا فدیہ ادا کرنا پڑے گا۔ 

حقوق العباد میں جن جن کے ساتھ ٓاج تک زیادتی کی ہو یا تکلیف پہنچائی ہو ان کا حق ادا کرنا پڑے گا یا اس کی کسی طرح تلافی کرنی پڑے گی۔ 

اس کے بعد فرمایا کہ یہ چار تسبیحات روز پڑھا کرے،
سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم
سبحان اللہ والحمداللہ و لا الہ الا للہ و اللہ اکبر
استغفر اللہ ربی من کل ذنب و اتوب علیہ
درود شریف

صبح فجر کی نماز کے بعد وقت مقرر کر لے۔ اس میں تھوڑا بہت قرٓان شریف پڑھنے کا معمول بنا لے۔ پھر یہ تسبیحات۔ اس کے بعد اتنا روز پڑھے۔ معمولات میں ناغہ نہیں ہونا چاہیے۔ ان کی پابندی بہت ضروری ہے۔ بے شک یہ معمول رکھے کہ صرف ایک رکوع روزانہ پڑھے گا مگر پھر اتنا ضرور پڑھے۔ کم مقدار سے شروع کرنا زیادہ بہتر ہے جس کو انسان جاری رکھ سکے بہ نسبت اس کے کہ بہت زیادہ شروع کردے اور پھر اس کو جاری نہ رکھ سکے۔

No comments:

Post a Comment