Sunday 21 February 2016

سابقہ سوویت یونین میں اسلام

ازبکستان کے سفر سے واپسی پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے حضرت نے فرمایا، "سوویت یونین کے زمانے میں مذہب پر اتنی سخت پابندی تھی کہ داڑھی رکھنا، نماز پڑھنا، عربی کی تعیلم دینا، تمام شعائر پر سخت پابندی تھی۔ اور اگر کسی شخص کے بارے میں نماز پڑھنے یا عربی کی تعلیم دینے یا حاصل کرنے کی خبر مل جائے تو اسے بہت سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ اور لوگوں میں تو اتنی شعائر کی پابندی ہے نہیں اس لیے ان لوگوں کو تو اتنی تکلیف نیں ہوئ لیکن مسلمانوں کو تو بہت ہی زیادہ سختی برداشت کرنی پڑی۔ ان حالات میں بھی علمائے دین نے دین کو اس طرح زندہ رکھا کہ گھروں میں چھوٹے چھوٹے حجرے بنا رکھے تھے۔ مثلاً یہ کہ الماری کے پیچھے دیوار نہیں ہے بلکہ تھوڑی سی جگہ خالی ہے۔ رات کو دو تین بجے جب ساری دنیا سو جاتی تو یہ لوگ ان حجروں میں جا بیٹھتے اور چونکہ کتابیں تو رہی نہیں تھیں اس لیے سینہ بسینہ تعلیم دیا کرتے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ستّر سال کے ظلم و جبر کے باوجود وہاں اب تک کچھ نہ کچھ عربی جاننے والے مل جاتے ہیں۔ ورنہ وہاں کے عام مسلمانوں کو تو یہ تک خبر نہیں کہ شراب حرام ہے۔ یہ "ملّا" جو ہے یہ بہت ہی سخت جان چیز ہے۔ اسی لیے تو لوگ اس کی اتنی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے ہوتے ہوئے دین میں تحریف نہیں ہو سکتی۔"

No comments:

Post a Comment