Sunday 29 January 2017

اختلاف بین المسلمین۔ حصّہ دوئم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

احقر نے عرض کیا کہ سب سے پہلی بات تو سمجھنے کی یہ ہے کہ دین میں کچھ اصول ہوتے ہیں یعنی بنیادی باتیں ہوتی ہیں اور کچھ فروع ہوتے ہیں جو ان کی شاخیں ہوتی ہیں یا غیر بنیادی باتیں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پہ نماز پڑھنا، یا یہ بات کہ دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں  دین کے اصولوں میں سے ہے۔ لیکن مثلاً وتر کی تینوں رکعتیں ایک ساتھ پڑھنی ہیں یا تیسری الگ سے پڑھنی ہے، یا تیسری رکعت میں دعا ہاتھ باندھ کر کرنی ہے یا ہاتھ دعائیہ انداز میں اٹھا کر کرنی ہے، یہ دین کا فروع ہے۔

اگر آپ پچھلی پندرہ صدیوں میں مسلمانوں کے اختلافات کی تفصیل دیکھ لیں تو اس میں اصول کا اختلاف بہت کم ملے گا، اور زیادہ تر اختلاف جو ملے گا وہ فروعی اختلاف ہے۔ مثلاً آج تک کبھی مسلمانوں میں اس بات پر اختلاف نہیں ہوا کہ دن میں پانچ نمازیں پڑھنی ہوتی ہیں، یا مغرب کی فرض نماز میں تین رکعتیں ہوتی ہیں، یا رمضان کے پورے مہینے میں روزے رکھنے ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کا کوئ فرقہ ایسا نہیں جو مجموعی طور سے یہ کہہ دے کہ اب زکوٰة فرض نہیں رہی، یا روزے رمضان میں صرف پندرہ دن رکھنے ہوتے ہیں، یا حج کی فرضیت اب ختم ہو گئ ہے۔ ہم لوگ ہر وقت اختلافات پہ نظر رکھتے ہیں لیکن یہ کبھی کسی نے سوچا کہ کتنی حیران کن بات ہے کہ رسول الله ﷺ کی بعثت کو تقریباً ڈیڑھ ہزار سال ہو گئے، اس عرصے میں مسلمانوں کی تعداد چند نفوس سے بڑھ کر تقریباً ڈیڑھ ارب ہو گئ اور جزیرہ نما عرب سے نکل کے پوری دنیا میں پھیل گئ، اس کے باوجود دینِ اسلام کی بنیادی باتیں بالکل وہی ہیں جو ڈیڑھ ہزار سال پہلے تھیں اور مسلمانوں کے کسی بڑے گروہ اور فرقے میں ان بنیادی باتوں پر آج تک کبھی اختلاف نہیں ہوا۔

جاری ہے۔۔۔

No comments:

Post a Comment