Tuesday 31 January 2017

اختلاف بین المسلمین۔ حصّہ پنجم

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

لیکن دوسری اور تیسری طرح کے احکام میں ایسا ہوتا آیا ہے کہ مختلف مجتہدوں اور آئمہ نے واضح احکام کی غیر موجودگی میں قرآن و حدیث میں غور و فکر کر کے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ اس معاملے میں صحیح طریقہ کیا ہے۔ ایک ہی معاملے میں ایک امام ایک نتیجے میں پہنچے اور دوسرے دوسرے نتیجےپہ۔ مثال کے طور پہ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں سورة فاتحہ پڑھی جانی ہے، لیکن سرّی (جس میں قراٴت آہستہ سے کی جاتی ہے) نمازوں کی جماعت میں ہر مقتدی کو اسے الگ الگ پڑھنا ہے یا امام سب کی طرف سے پڑھے گا، یہ قرآن اور حدیث میں صرحاً نہیں بیان کیا گیا۔ ایک امام اس نتیجے پہ پہنچے کہ ہر مقتدی کو الگ الگ پڑھنا چاہئے۔ دوسرے امام نے یہ فرمایا کہ ہر مقتدی کو زبان سے نہیں پڑھنا چاہئے، امام سب کی طرف سے پڑھے گا۔ 

ان معاملات کا حکم یہ ہے کہ چونکہ الله اور الله کے رسول ﷺ نے ایسے معاملات میں واضح حکم نہیں دیا اس لئے ان معاملات میں یہ سمجھنا کہ میرا طریقہ سو فیصد صحیح ہے اور باقی ہر طریقہ سو فیصد غلط ہے، صحیح نہیں۔ جو عالمِ ربّانی قرآن و حدیث میں غور و فکر کے بعد جس نتیجے پہ پہنچا اس کے لئے وہی صحیح ہے، اور جس شخص نے اسے حق پہ سمجھتے ہوئے اتّباعِ شریعت کی نیّت سے اس کا اتّباع کیا اس کے لئے وہی حق ہے۔ اس میں اپنے یا اپنے امام کے طریقے کے علاوہ دوسروں کے طریقوں کو غلط سمجھنا صحیح نہیں۔ جس معاملے میں الله اور الله کے رسول نے کسی طریقے کو واضحًا سو فیصد صحیح قرار نہیں دیا، اس معاملے میں کسی اور انسان کو یہ حق کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ ایسے معاملات میں انسان اتّباعِ حق کی نیّت سے جو طریقہ اختیار کرے گا انشاٴالله اس میں خیر ہی ہو گی۔ بس انسان خود رائ سے پرہیز کرے اور کسی معتبر عالم کی اتّباع کرے، اور کسی دوسرے پہ اعتراض نہ کرے۔

جاری ہے۔۔۔

No comments:

Post a Comment