Thursday 26 January 2017

يَسۡـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلۡأَهِلَّةِ‌ۖ قُلۡ هِىَ مَوَٲقِيتُ لِلنَّاسِ وَٱلۡحَجِّ‌ۗ وَلَيۡسَ ٱلۡبِرُّ بِأَن تَأۡتُواْ ٱلۡبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَـٰكِنَّ ٱلۡبِرَّ مَنِ ٱتَّقَىٰ‌ۗ وَأۡتُواْ ٱلۡبُيُوتَ مِنۡ أَبۡوَٲبِهَا‌ۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ لَعَلَّڪُمۡ تُفۡلِحُونَ O (سورة البقرة ۱۸۹)

"لوگ آپ سے نئے مہینوں کے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ انہیں بتا دیجئے کہ یہ لوگوں کے (مختلف معاملات کے) اور حج کے اوقات متعیّن کرنے کے لئے ہیں۔ اور یہ کوئ نیکی نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے داخل ہو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ انسان تقوٰی اختیار کرے، اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا کرو، اور الله سے ڈرتے رہو تا کہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔" (سورة البقرة:۱۸۹)

چاند کے معاملے میں جو الفاظ قرآن کریم نے استعمال کیے ان سے واضح اشارہ اس طرف نکلتا ہے کہ شریعتِ اسلام میں حساب چاند ہی کا متعیّن ہے، خصوصاً ان عبادات میں جن کا تعلّق کسی خاص مہینے اور اس کی تاریخوں سے ہے، جیسے رمضان کے روزے، حج کے مہینے، حج کے ایّام، محرّم وغیرہ سے جو احکام متعّلق ہیں وہ سب رویتِ ہلال سے متعلّق کئے گئے ہیں، گو کہ یہ حساب سورج سے بھی معلوم ہو سکتا ہے۔

شریعتِ اسلام نے چاند کے حساب کو اس لئے اختیار فرمایا کہ اس کو ہر آنکھوں والا افق پر دیکھ کر معلوم کر سکتا ہے۔ عالم، جاہل، دیہاتی، پہاڑوں یا جنگل میں رہنے والے، سب کے لئے اس کا حساب آسان ہے، بخلاف شمسی حساب کے وہ آلاتِ رصدیہ اور قواعدِ ریاضیہ پہ موقوف ہے جس کو ہر شخص آسانی سے معلوم نہیں کر سکتا۔

پھر عبادات کے معاملے میں تو قمری حساب کو بطورِ فرض متعیّن کر دیا، اور عام معاملاتِ تجارت میں بھی اسی کو پسند کیا جو عبادتِ اسلام کا ذریعہ ہے اور ایک طرح کا اسلامی شعار ہے، اگرچہ شمسی حساب کو بھی ناجائز قرار نہیں دیا۔ شرط یہ ہے کہ اس کا حساب اتنا عام نہ ہو جائے کہ لوگ قمری حساب کو بالکل بھلا دیں، کیونکہ ایسا کرنے میں عباداتِ روزہ و حج وغیرہ میں خلل لازم آتا ہے۔ اگر مسلمان دفتری معاملات میں جن کا تعلّق غیر مسلموں سے بھی ہے ان میں صرف شمسی حساب رکھیں، باقی نجی خط و کتابت اور روز مرّہ کی ضروریات میں قمری اسلامی تاریخوں کا استعمال کریں تو اس میں فرضِ کفایہ کی ادائیگی کاثواب بھی ہوگا اور اپنا قومی شعار بھی محفوظ رہے گا۔

اس آیت کے دوسرے حصّے سے یہ مسئلہ بھی نکل آیا کہ جس چیز کو شریعتِ اسلام نے ضروری یا عبادت نہ سمجھا ہو  اس کو اپنی طرف سے ضروری اور عبادت سمجھ لینا جائز نہیں۔ اسی طرح جو چیز شرعاً جائز ہو اس کو گناہ سمجھنا بھی گناہ ہے۔ ان لوگوں نے یہی غلطی کر رکھی تھی کہ گھر کے دروازوں سے داخل ہونا جو جائز تھا اس کو گناہ قرار دے لیا تھا، اور پیچھے کی دیوار کو توڑ کر آنا جو ضروری نہیں تھا اس کو ضروری سمجھ رکھا تھا۔ بدعات کے ناجائز ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ جس چیز کو شریعت نے ضروری قرار نہیں دیا اس کو ضروری سمجھ لیا جاتا ہے، یا جس چیز کو شریعت نے جائز کیا ہے اس کو ناجائز سمجھ لیا جاتا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیعؒ

No comments:

Post a Comment