Friday 18 November 2016

متّقین کی تین صفات: حصہ اوّل

"یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئ شک نہیں، یہ ہدایت ہے ان ڈر رکھنے والوں کے لئے جو اندیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے (الله کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔" (سورہٴ البقرہ:۱۔۴)

لغت میں کسی بات کو کسی کے اعتماد پر یقینی طور سے مان لینے کا نام ایمان ہے۔ جو تصدیق مشاہدے کی بنیاد پہ کی جائے اس کو تصدیق کرنا تو کہیں گے ایمان لانا نہیں کہا جائے گا۔ اصطلاحِ شرع میں خبرِ رسول کو بغیر مشاہدے اور محض رسول ﷺ کے اعتماد پر یقینی طور سے مان لینے کا نام ایمان ہے۔ 

قرآن میں لفظ غیب سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جن کی خبر رسول الله ﷺ نے دی ہے، اور ان کا علم بداہتِ عقل اور حواسِ خمسہ کے ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ اس میں الله تعالیٰ کی ذات و صفات بھی آ جاتی ہیں، اور تقدیری امور، جنّت و دوزخ کے حالات، قیامت اور اس میں پیش آنے والے حالات، فرشتے، تمام آسمانی کتابیں اور تمام انبیاء سابقینؑ بھی۔

تو اب ایمان بالغیب کے معنی یہ ہو گئے کہ رسول الله ﷺ جو ہدایات و تعلیمات لے کر آئے ہیں، ان سب کو یقینی طور پر دل سے ماننا۔ شرط یہ ہے کہ اس تعلیم کا رسول الله ﷺ سے منقول ہونا قطعی طور پر ثابت ہو۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیہ


No comments:

Post a Comment