Thursday 17 November 2016

"(اے الله!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔" (سورہٴ فاتحہ:۴)

اس آیت میں ارشاد یہ ہے کہ "ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں"، کس کام میں مدد مانگتے ہیں اس کا ذکر نہیں۔ جمہور مفسّرین نے لکھا ہے کہ اس کا ذکر نہ کرنے میں عموم کی طرف اشارہ ہے کہ ہم اپنی ہر عبادت اور ہر دنیاوی اور دینی کام اور ہر مقصد میں صرف آپ ہی کی مدد چاہتے ہیں۔ 

پھر عبادت صرف نماز روزے کا نام نہیں۔ امام غزالیؒ نے اپنی کتاب اربعین میں عبادت کی دس قسمیں لکھی ہیں: ۱۔ نماز، ۲۔ زکوٰة، ۳۔ روزہ، ۴۔ حج، ۵۔ تلاوتِ قرآن، ۶۔ ہر حالت میں الله کا ذکر کرنا، ۷۔ حلال روزی کے لئے کوشش کرنا، ۸۔ پڑوسی اور ساتھی کے حقوق ادا کرنا، ۹۔ لوگوں کو نیک کاموں کا حکم کرنا اور برے کاموں سے منع کرنا، ۱۰۔ رسول الله ﷺ کی سنّت کا اتّباع کرنا۔ 

اس لئے عبادت میں الله تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کے معنی یہ ہو گئے کہ نہ کسی کی محبّت الله تعالیٰ کی محبّت کے برابر ہو، نہ کسی کا خوف اس کے برابر ہو، نہ کسی سے امید اس کی طرح ہو، نہ کسی پر بھروسہ الله کے مثل ہو، نہ کسی کی اطاعت و خدمت اور کام کو اتنا ضروری سمجھے جتنا الله تعالیٰ کی عبادت کو، نہ الله تعالیٰ کی طرح کسی کی نذر اور منّت مانے، نہ الله تعالیٰ کی طرح کسی دوسرے کے سامنے اپنی مکمل عاجزی اور تذلّل کا اظہار کرے، نہ وہ افعال کسی دوسرے کے لئے کرے جو انتہائ تذلّل کی علامات ہیں، جیسے رکوع و سجدہ۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

No comments:

Post a Comment