Tuesday 8 November 2016

اختلافی معاملات میں طویل بحثوں سے اجتناب

"کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین آدمی تھے اور چوتھا ان کا کتّا تھا، اور کچھ کہیں گے کہ وہ پانچ تھے، اور چھٹا اور ان کا کتّا تھا۔ یہ سب اٹکل کے تیر چلانے کی باتیں ہیں۔ اور کچھ کہیں گے کہ وہ سات تھے، اور آٹھواں ان کا کتّا تھا۔ کہہ دو کہ:"میرا رب ہی ان کی صحیح تعداد کو جانتا ہے۔ تھوڑے سے لوگوں کے سوا کسی کو ان کا پورا علم نہیں۔" لہذا ان کے بارے میں سرسری گفتگو سے آگے بڑھ کر کوئ بحث نہ کرو، اور نہ ان کے بارے میں کسی سے پوچھ گچھ کرو۔" (سورہٴ کہف:۲۲)

حضرت مفتی محمد شفیع ؒ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ اس میں رسول الله ﷺ کو جو تعلیم دی گئ ہے وہ درحقیقت علماء امّت کے لئے اہم رہنما اصول ہیں، کہ جب کسی معاملے میں اختلاف پیش آئے تو جس قدر ضروری بات ہے اس کو واضح کر کے بیان کر دیا جائے۔ اس کے بعد بھی لوگ غیر ضروری بحث میں الجھیں تو ان کے ساتھ سرسری گفتگو کر کے بحث ختم کر دی جائے۔ اپنے دعوے کے اثبات میں کاوش اور ان کی بات کی تردید میں بہت زور لگانے سے گریز کیا جئے کہ اس کا کوئ خاص فائدہ تو ہے نہیں۔ مزید بحث و تکرار میں وقت کا زیاں بھی ہے اور باہم تلخی پیدا ہونے کا خطرہ بھی۔

ماخوذ از معارف القرآن، تالیف مفتی محمد شفیع رحمتہ الله علیه

No comments:

Post a Comment