Sunday 30 July 2017

اجتہاد کیا ہے؟ پہلا حصّہ

ابھی چند دن پہلے ایک قریبی عزیز نے اس کا تذکرہ کیا کہ آج کل خصوصاً مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمان عبادات میں ایسے طریقے اختیار کرنے لگے ہیں جن کا اسلام میں پہلے کبھی رواج نہیں رہا۔ اس کو بعض لوگ اجتہاد سے تعبیر کرتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ جب پہلے زمانے کے مسلمانوں کو اجتہاد کا حق حاصل تھا تو ہمیں کیوں نہیں ہے۔ اسی بات سے خیال ہوا کہ اجتہاد کی تھوڑی سی حقیقت عرض کر دوں۔

شریعت میں احکام کے چار مآخذ یعنی سورسز ہیں۔ سب سے پہلے تو قرآن کریم، پھر حدیث و سنّت، پھر امّتِ مسلمہ کا اجماع یعنی ایک بات پر جمع ہو جانا، اور پھر اجتہاد یعنی ایک شخص کا خود قرآن و سنّت کی تعلیم میں غور کر کے کسی نئ صورتحال کے بارے میں حکم استنباط یا اخذ کرنا۔


اس میں سب سے پہلے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان مآخذ کی اسی ترتیب سے درجہ بندی ہے جس میں انہیں اوپر لکھا گیا ہے۔ جس چیز کا حکم قرآن میں واضح طور پر آ گیا، جس کو نص کہتے ہیں، آپ کو کسی حدیث میں اس کے خلاف حکم نہیں ملے گا۔ اسی طرح پوری امّت کو یا کسی فردِ واحد کو یہ اختیار نہیں کہ وہ مل کے یا الگ الگ اس نص کو تبدیل کر دے۔ وہ حکم قیامت تک اسی طرح ویسے ہی جاری رہے گا۔ مثلاً قرآن میں نماز پڑھنے کا حکم بہت مرتبہ آیا ہے۔ اب اگر آج کے سارے مسلمان مل کر آپس میں مشورہ کریں کہ آج کل تو لوگ بہت مصروف ہو گئے ہیں، ان حالات میں پانچ دفعہ نماز پڑھنا تو سب کے لیے بہت مشکل ہے (معاذ الّٰلہ) اس لیے آج سے یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ تین دفعہ نماز پڑھنا کافی ہے، تو ایسے اجماع کی کوئ حیثیت نہیں ہو گی اور اس سے الّٰلہ تعالیٰ کا حکم تبدیل نہیں ہو سکتا۔

بالکل اسی طرح سے جو حکم قرآن کریم میں نہیں آیا لیکن رسول الّٰلہ ﷺ نے اپنے قول یا عمل سے اس کی صراحت فرما دی وہ اب کسی اجماع یا اجتہاد سے تبدیل نہیں ہو سکتا۔ مثلاً قرآن کریم میں نماز پڑھنے کا حکم ساٹھ سے زیادہ مرتبہ آیا ہے لیکن یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ فجر میں کتنی رکعتیں پڑھی جائیں گی اور ظہر میں کتنی رکعتیں پڑھی جائیں گی۔ یہ ساری تفصیل رسول الّٰلہ ﷺ نے تعلیم فرمائ۔ اب اگر آج کے سارے مسلمان یہ مل کر فیصلہ کرنا چاہیں کہ رات کے وقت تو انسان بہت تھکا ہوا ہوتا ہے، اس لیے عشاء کی چار رکعتیں تو بہت زیادہ ہیں (نعوذ بالّٰلہ)، بس اب سے دو رکعتیں پڑھنا کافی ہے، تو سارے مسلمان مل کر بھی یہ حکم تبدیل نہیں کر سکتے۔

اس لیے سب سے پہلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ اجتہاد صرف اس معاملے میں کرنا جائز ہے جو معاملہ اتنا نیا ہو کہ اس کے بارے میں نہ قرآن کریم میں اور نہ حدیث میں کوئ حکم آیا ہو، اور نہ ہی اس معاملے میں مسلم امّہ کا کوئ اجماع موجود ہو۔ اس کی ایک مثال آج کے معاشی معاملات ہیں۔ آج کل جس طرح سے بزنس کیا جاتا ہے اس کی بہت سی صورتیں قرونِ اولیٰ میں موجود نہیں تھیں اور ان کے بارے میں کوئ واضح احکام موجود نہیں ہیں کہ ان میں کون سی صورتیں شریعت کے اعتبار سے جائز ہیں اور کون سی ناجائز۔ اس لیے ان کے بارے میں اجتہاد کرنا اور غور و فکر کرنا بالکل جائز ہے کہ ان صورتیں میں سے کون سی جائز ہیں اور کون سی ناجائز۔

جاری ہے۔۔۔



No comments:

Post a Comment