Thursday 20 July 2017

سورہٴ آلِ عمران: ۱٤ - دوسرا حصّہ

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

اس آیت میں دنیا کی چند اہم مرغوب چیزوں کا نام لے کر بتلایا گیا ہے کہ لوگوں کی نظر میں ان کی محبّت خوش نما بنا دی گئ ہے، اس لئے بہت سے لوگ ان کی محبّت میں مبتلا ہو کے آخرت کو بھلا بیٹھتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلے عورت کو اور اس کے بعد اولاد کو بیان کیا گیا ہے، کیونکہ دنیا میں انسان جتنی چیزوں کے حاصل کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے اس کا ایک بہت بڑا سبب گھر والوں اور اولاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو لوگ ہر جائز و ناجائز ذریعے سے اتنا مال جمع کرنے کی فکر میں پڑے رہتے ہیں جس کے بارے میں انہیں خود بھی پتہ ہوتا ہے کہ اتنا مال وہ عمر بھر کبھی بھی خرچ نہیں کر سکتے، ان سے پوچھا جائے تو وہ بھی یہی جواز دیتے ہیں کہ وہ یہ مال اپنی اولاد اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے جمع کر رہے ہیں۔ اس کےبعد سونے چاندی، مویشیوں، اور کھیتی کا ذکر ہے جو کہ دوسرے درجے میں بہت سے لوگوں کے دلوں میں بسے ہوئے ہوتے ہیں۔

مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ الّٰلہ تعالیٰ نے ان چیزوں کی محبّت طبعی طور پہ انسانوں کے دلوں میں ڈال دی ہے جس میں ہزاروں حکمتیں ہیں۔ ان میں سے ایک حکمت تو یہ ہے کہ اگر انسان طبعی طور پر ان چیزوں کی طرف مائل اور ان سے محبّت کرنے والا نہ ہوتا تو دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔ اگر انسان کی دل میں پیسہ کمانے کی اور اپنی اور اپنے گھر والوں کی خواہشات کو پورا کرنے کی خواہش نہ ہوتی تو وہ صبح سویرے اٹھ کر گھر سے مشقّت کرنے کے لیے کیوں نکلتا؟ مزدور مزدوری کیوں کرتا، مالدار اس مزدور کو اپنا کام نکلوانے کے لیے کیوں مزدوری دیتا، تاجر دکان کیوں کھولتا، اور خریدار پیسے لے کر دکان سے اپنی ضرورت اور خواہشات کا سامان خریدنے کے لیے کیوں جاتا؟ غور کیا جائے تو انہیں مرغوبات کی محبّت کی وجہ سے دنیا کا یہ تمدّنی نظام قائم ہے۔

جاری ہے۔۔۔

No comments:

Post a Comment