Sunday 30 July 2017

اجتہاد کیا ہے؟ چھٹا حصّہ

اس شبہے کے دو جواب ہیں، ایک علمی اور ایک عملی۔ 

اس کا علمی جواب ایک دفعہ حضرت مفتی شفیعؒ نے بیان فرمایا کہ اخلاق و کردار کی بعض صفات ایسی ہیں کہ الّٰلہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں قوموں کی ترقّی اور عزّت کے ساتھ مشروط فرما دیا ہے۔ وہ صفات ہیں سچ بولنا، کبھی جھوٹ نہ بولنا، دیانتداری، معاشرے میں انصاف کا ہونا اور نا انصافی اور ظلم کا نہ ہونا۔ جس قوم میں بھی یہ صفات ہوں گی، چاہے وہ صاحبِ ایمان ہو یا نہ ہو، الّٰلہ تعالیٰ اسے اس دنیا میں عزت، سربلندی اور ترقی عطا فرمائیں گے۔ اس کے برعکس کچھ اخلاقی صفات ایسی ہیں کہ الّٰلہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں ذلّت اور خواری کے ساتھ مشروط فرما دیا ہے۔ وہ صفات ہیں جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، چوری کرنا، معاشرے میں ظلم کا عام ہو جانا۔ یہ صفات جس معاشرے میں بھی عام ہو جائیں گی، وہ اس دنیا میں ذلیل و خوار ہو گی اور اس کی کوئ عزّت نہیں ہو گی، چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ہو۔ 

آج کی اس دنیا میں، بالکل تاریخ کے کسی دور میں بھی، کسی قوم کے عروج و زوال کو سمجھنے کے لیے صرف یہ دیکھ لینا کافی ہے اس میں اوپر بیان کی گئ صفات میں سے کون سی صفات موجود ہیں۔ انصاف اور دیانتداری والے معاشرے دنیا میں عزت پاتے ہیں اور ظلم اور فریب جن معاشروں میں عام ہو جاتا ہے وہ دنیا میں ذلیل ہوتے ہیں۔ اور جو معاشرے کبھی دنیا میں عزت والے تھے جب ان میں ظلم اور جھوٹ بولنا بڑھ جاتا ہے تو وہ زوال کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ہم مسلمان لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید الّٰلہ تعالیٰ کا ہم سے کوئ ایسا مقصد اٹکا ہوا ہے جو معاذ الّٰلہ ہمارے بغیر پورا نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ قرآن کریم میں الّٰلہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ اگر تم ہماری نافرمانی کرو گے تو ہم تمہیں ختم کر دیں گے اور تمہاری جگہ ایسی قوم لے آئیں گے جو ہماری فرماں بردار ہو گی۔ الّٰلہ تعالیٰ ہم آج کے مسلمانوں کو ان آیات کی مثال بننے سے بچائے۔ آمین

جاری ہے۔۔۔

No comments:

Post a Comment