Monday 19 June 2017

سورہ البقرہ: ۲۸۵ تا ۲۸٦ - چھٹا حصّہ

دوسری آیت میں وہ شبہ دور کیا گیا ہے جو پچھلی آیت کے بعض جملوں سے پیدا ہو سکتا تھا، کہ غیر اختیاری طور پہ دل میں آنے والے ہر خیال پہ حساب  ہو تو عذاب سے کیسے بچیں گے۔ ارشاد فرمایا، "لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَهَا"، یعنی "الّٰلہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زائد کام کا حکم نہیں دیتے"، اس لیے غیر اختیاری طور پہ جو خیالات و وسوسے دل میں آ جائیں، اور پھر ان پہ کوئ عمل نہ ہو تو وہ سب الّٰلہ تعالیٰ کے نزدیک معاف ہیں، حساب اور موٴاخذہ صرف ان اعمال پر ہو گا جو اختیار اور ارادے سے کیے جائیں۔

اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ جس طرح انسان کے اعمال و افعال جو ہاتھ پیر، آنکھ اور زبان وغیرہ سے تعلّق رکھتے ہیں، جن کو اعمالِ ظاہرہ کہا جاتا ہے، ان کی دو قسمیں ہیں۔ ایک اختیاری یعنی جو اختیار اور ارادے سے کیے جائیں، جیسے ارادے سے کسی کی غیبت کرنا، ارادہ سے کسی کو مارنا۔ دوسرے غیر اختیاری، جو بلا ارادہ سرزد ہو جائیں، جیسے زبان سے کہنا کچھ چاہتا تھا لیکن نکل کچھ اور گیا، یا رعشہ سے بلا اختیار ہاتھ کی حرکت ہوئ اس سے کسی کو تکلیف پہنچ گئ، ان میں سب کو معلوم ہے کہ حساب و کتاب اور جزاء و سزاء صرف ان اعمال کے ساتھ مخصوص ہیں جو اپنے ارادے اور اختیاری نیّت کے ساتھ کیے جائیں۔ جو افعال انسان کے اختیار اور ارادے کے بغیر سرزد ہو جائیں نہ انسان ان کا مکلّف (جوابدہ) ہے اور نہ ان پہ ثواب یا عذاب ہوتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

No comments:

Post a Comment