Saturday 24 June 2017

سورہ آلِ عمران: ۱ تا ۵ - دوسرا حصّہ

سورہٴ آلِ عمران کی ابتدائ پانچ آیتوں میں اس مقصدِ عظیم کا ذکر ہے جس کی وجہ سے مسلمان غیر مسلموں سے مختلف ہیں ، اور وہ الّٰلہ جلّ شانہ‘ کی توحید ہے۔ اس کے ماننے والے موٴمن اور نہ ماننے والے غیر مسلم کہلاتے ہیں۔ 

پہلی آیت میں ارشاد ہے، "الٓمّٓ ۚۙ‏۔ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ الۡحَىُّ الۡقَيُّوۡمُؕ‏ " اس میں لفظ الٓمّٓ تو متشابہاتِ قرآنیہ میں سے ہے جس کے معنی صرف الّٰلہ تعالیٰ اور رسول الّٰلہ ﷺ کو ہی معلوم ہیں۔ اس کے بعد اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ الۡحَىُّ الۡقَيُّوۡمُؕ میں مضمونِ توحید کو ایک دعوے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے، معنی یہ ہیں کہ الّٰلہ تعالیٰ ایسے ہیں کہ ان کے سوا کوئ معبود بنانے کے قابل نہیں۔ 

اس کے بعد الّٰلہ تعالی کی صفات الۡحَىُّ الۡقَيُّوۡمُؕ لا کر توحید کی عقلی دلیل بیان کی گئ ہے۔ حَىُّ کا مطلب عربی زبان میں ہے "زندہ"۔ جب یہ لفظ الّٰلہ تعالیٰ کے اسمائے الٰہیہ (الّٰلہ تعالیٰ کے نام) میں استعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے وہ ذات جو ہمیشہ زندہ اور باقی رہنے والی ہے، جو موت سے بالاتر ہے۔ لفظ قَيُّوم قیام سے نکلا ہے۔ قیام کے معنی ہیں کھڑے ہونا، قائم کھڑا ہونے والے کو کہتے ہیں۔ قیّوم اور قیّام مبالغے کے صیغے کہلاتے ہیں، انکے معنی ہیں وہ جو خود قائم رہ کر دوسروں کو قائم رکھتا اور سنبھالتا ہے۔

اس کی تشریح یہ ہے کہ عبادت نام ہے اپنے آپ کو کسی کے سامنے انتہائ عاجز و ذلیل کر کے پیش کرنے کا، اور اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ جس کی عبادت کی جائے وہ عزّت و جبروت کے انتہائ مقام کا مالک اور ہر اعتبار سے کامل ہو۔ اور ظاہر ہے کہ جو چیز خود وجود میں آنے کے لیے بھی اور قائم رہنے کے لیے بھی کسی دوسرے کی محتاج ہو اس کا عزّت و جبروت میں کیا مقام ہو سکتا ہے۔ اس لیے بالکل واضح ہو گیا کہ دنیا میں جتنی چیزیں ہیں جو نہ خود اپنے آپ کو وجود میں لا سکتی ہیں، نہ خود ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے آپ کو قائم رکھ سکتی ہیں، وہ خواہ پتھر کے گھڑے ہوئے بت ہوں، سورج ہو، آگ ہو، یا پیغمبر ہوں یا بزرگانِ دین ہوں، ان میں سے کوئ بھی عبادت کے لائق نہیں۔ عبادت کے لائق صرف وہی ذات ہو سکتی ہے جو ہمیشہ سے زندہ و موجود ہے اور ہمیشہ زندہ و قائم رہے گی۔ 

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

No comments:

Post a Comment