Sunday 11 June 2017

سورہٴ البقرہ: ٢٨٤ - ساتواں اور آخری حصّہ

یہ آیت سورہٴ بقرہ کے بالکل آخر میں لائ گئ، اس میں بڑی حکمت ہے۔ سورہٴ بقرہ قرآن کریم کی ایسی بڑی اور عظیم سورت ہے کہ اس میں احکامِ الٰہیہ کا بہت بڑا حصّہ آ گیا ہے۔ اس سورت میں اصولی اور فروعی معاش و معاد کے متعلّق اہم ہدایات، نماز، زکوٰة، روزہ، قصاص، حج، جہاد، طہارت، طلاق، عدّت، خلع، رضاعت، حرمتِ شراب، ربا اور قرض، لین دین کے جائز و ناجائز طریقوں کا تفصیلی بیان آ گیا ہے۔ اسی لیے حدیث میں اس سورت کا نام "سنام القرآن" بھی آیا ہے یعنی قرآن کا سب سے بلند حصّہ۔ 

اوپر جتنے بھی احکام آئے ہیں ان تمام احکام کی روح اخلاص ہے، یعنی کسی کام کو کرنا یا اس کو چھوڑ دینا دونوں خالص الّٰلہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہوں، ان میں نام و نمود یا دوسری نفسانی اغراض شامل نہ ہوں۔ یہ ظاہر ہے کہ اخلاص کا تعلّق انسان کے باطن اور قلب سے ہے، سب کی درستی اسی پر موقوف ہے، اس لیے سورت کے آخر میں اس آیت کے ذریعے انسان کو تنبیہ کر دی گئ کہ فرائض کی ادائیگی یا محرمات سے بچنے کے معاملے میں انسان لوگوں کو تو دھوکہ دے سکتا ہے لیکن الّٰلہ تعالی علیم و خبیر ہے۔ وہ ان تمام کاموں سے بھی واقف ہے جو انسان سب سے چھپ کر تنہائی میں کرتا ہے اور انسان کے دل میں چھپے ہوئے رازوں اور خیالات سے بھی باخبر ہے۔ اس لیے انسان جو کچھ بھی کرے یہ سوچ کر کرے کہ الّٰلہ تعالیٰ میرے سب حالات اور اعمال سے واقف ہیں اور سب دیکھ رہے ہیں، اور مجھے ان سب اعمال کا حساب قیامت کے روز دینا ہے۔ یہی وہ روح ہے جو قرآن کریم انسان کے دل میں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب یہ پیدا ہو جائے تو انسان رات کے اندھیرے اور مکمل تنہائ میں بھی الّٰلہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے سے رکنے لگتا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

No comments:

Post a Comment