Friday 26 August 2016

حقوق العباد کی ادائیگی ضروری ہے

حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ حقوق العباد کا ادا کرنا اورادو وظائف (تسبیح پڑھنا) سے بدرجہا زیادہ ضروری ہے۔ اس سے مواخذہ ہو گا اور ترکِ وظائف سے کچھ مواخذہ نہیں۔ یہ (وظیفہ پڑھنا) تو مستحب ہے۔ لوگ ضروری کام چھوڑ کر غیر ضروری اختیار کرتے ہیں۔

ماخوذ از ملفوظاتِ حکیم الامّت

تشریح:جن کاموں کو کرنے سے ثواب ملتا ہے ان کے تین درجات ہیں۔

۱۔ فرائض و واجبات۔ فرائض ان کاموں کو کہا جاتا ہے جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں صریح اور واضح حکم آیا ہے مثلاً نماز پڑھنا، زکوٰة دینا، والدین کا حکم ماننا، بیوی بچّوں کے حقوق پورے کرنا۔ واجب ان کاموں کو کہا جاتا ہے جن کے بارے میں خود سے حکم نہیں آیا لیکن اگر رسول الّٰلہ ﷺ سے پوچھا گیا تو انہوں نے اس کے کرنے کا امر کیا یا ان کے سامنے ذکر ہوا کہ فلاں نہیں کرتا ہے تو اس پہ نکیر فرمائ۔ فرائض و واجبات کا بلا عذر چھوڑنا گناہِ کبیرہ ہے۔ 

۲۔ سنّت۔ اس کے دو درجات ہیں۔ جو کام رسول الّٰلہ ﷺ نے ہمیشہ کیا اسکو سنّتِ موکدہ کہتے ہیں۔ جو کام رسول الّٰلہ ﷺ نے کبھی کیا اور کبھی نہیں کیا اسے سنّتِ غیر موکدہ کہتے ہیں۔ سنّتِ موکدہ واجب کے قریب ہے اور سنّت غیر موکدہ مستحب کے۔  

۳۔ مستحب۔ وہ کام جس کے کرنے سے ثواب ہوتا ہے لیکن نہ کرنے سے گناہ نہیں ہوتا، مثلاً نفل نماز پڑھنا یا نفلی صدقہ خیرات دینا۔

ان درجات کا جاننا دو وجہ سے ضروری ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جس عمل کا درجہ جتنا اونچا ہے اس کی پابندی کرنا اتنا ہی ضروری ہےاور اگر کبھی ایسا وقت آئے کہ ایک وقت میں دونوں عمل کرنے کا تقاضہ ہو تو اونچے درجے کے عمل کے لئے نچلے درجے کے عمل کو چھوڑنا ضروری ہے۔ مثلاً بعض دفعہ جب لوگوں کو نیا نیا دین کا شوق ہوتا ہے تو انہیں اس میں بہت مزا آتا ہے اور سوائے اس ایک بات کے کسی اور بات کا خیال نہیں رہتا۔ لیکن اس وقت یہ یاد رکھنا چاہیے کہ گھر والوں، بیوی بچوں، کا خرچہ پورا کرنا اور ان کے حقوق پورے کرنا شرعاً فرض ہے، اور نفلی عبادت کرنا مستحب۔ اب اگر وہ ہر وقت مسجد میں بیٹھا نفلی نماز، قرآن یا تسبیح پڑھتا رہے اور اپنے بیوی بچوں کو تکلیف میں اور تنگی میں ڈال دے تو نہ صرف اسے اس نفلی عبادت کا فائدہ نہیں ہو گا، بلکہ حقوق العباد کے فرض کو ترک کرنے کا شدید گناہ ہو گا۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر کوئ فرائض و واجبات چھوڑے تو اس کو اصرار سے نصیحت کرنا جائز ہے، لیکن کسی مستحب عبادت کے لئے کسی کو مجبور کرنا جائز نہیں۔ مثلاً اگر ایک شخص نماز نہ پڑھتا ہو تو جس انسان کی وہ بات سنتا ہو اس انسان کے لیے اسے سمجھانا جائز بلکہ ضروری ہے اور اصرار کرنا بھی جائز ہے۔ (اس میں بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اس میں سختی نہیں کرنی چاہیےاور سخت الفاظ نہیں استعمال کرنے چاہیئیں کیونکہ بعض دفعہ ضد میں انسان ایسا کلمہ کہہ بیٹھتا ہے جس سے کہنے والے کو تو گناہ ملتا ہی ہے لیکن جو سختی کر کے اس کا سبب بنا  وہ بھی گناہ گار ہوتا ہے)  لیکن کوئ انسان اگر کوئ مستحب کام نہ کرنا چاہے مثلاً کسی نفلی کارِ خیر میں چندہ نہ دینا چاہے یا کوئ نفلی عبادت نہ کرنا چاہےتو اس سے اصرار کرنا شرعاً جائز نہیں، اور نہ کرنے پہ ملامت کرنا بھی جائز نہیں۔

(اس عبارت میں بہت سارے الفاظ راقم کے ہیں۔ باتیں تو یہ امید ہے کہ ساری وہی ہیں جو راقم نے بزرگوں سے سنی یا ان کی کتابوں میں پڑھی ہیں لیکن اگر پھر بھی کوئ غلطی ہوئ ہو تو برائے مہربانی مجھے بلا تکلّف مطلع فرما دیں۔ الّٰلہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔)

No comments:

Post a Comment