Tuesday 30 August 2016

اسلام اور انسانی حقوق: ۲۔ مال کا تحفّظ

لا تاکلو اموالکم بینکم بالباطل
باطل کے ساتھ ناحق طریقے سے کسی کا مال مت کھاؤ



اپنے مال کا تحفّظ انسان کا دوسرا بنیادی حق ہے۔ جیسے کہ پچھلی ایک حالیہ تحریر میں عرض کیا گیا تھا جن اعمال کے کرنے سے ثواب ملتا ہے ان کے تین درجات ہیں۔ فرائض و واجبات، سنّت، اور مستحب۔ فرض و واجب مالی عبادات کی مثال زکوٰة، حج، قربانی، یا گھر والوں کا نان نفقہ ہے۔ ان سب عبادات کے لئے بعض صورتوں میں حکومت کا زور دینا بھی جائز ہے، اور انسان کا جس پر اثر ہو اور امید ہے کہ وہ اس کے کہنے سے سن لے گا اس کا کہنا بھی جائز ہے۔ لیکن شریعت نے دوسروں کے مال کی اتنی شدید حفاظت فرمائ ہے کہ ان چند فرائض و واجبات کے علاوہ کسی انسان کو کسی نفلی صدقہ خیرات کے لئے مجبور کرنا بھی شرعاً جائز نہیں۔ اگر کسی پہ دباؤ ڈال کر یا شرما شرمی میں زبردستی مال کسی نیک مقصد کے لئےلے بھی لیا جائے تو ایسے مال کا لیناحرام ہے، اور اس سے ثواب کیا ملتا، الٹا گناہ ہو گا۔ 
شریعت میں ایک اصطلاح "طیبِ خاطر" استعمال ہوئ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئ اپنے دل کی خوشی سے کسی دوسرے کو کوئ مال یا تحفہ دے دے۔ شریعت کا حکم یہ ہے کہ کسی کی طیبِ خاطر کے بغیر اس کا مال لینا حرام ہے۔ (تقسیم سے پہلے) ہندوستان میں جائیداد میراث میں بھائ لے لیتے تھے اور بہنوں سے معاف کروا لیتے تھے۔ حضرت تھانویؒ اس کی مثال دیتے ہوئے فرماتے تھے کہ ایسی معافی معتبر نہیں کیونکہ بہنیں بیچاری جانتی ہیں کہ ملنا تو کچھ ہے نہیں، منع کر کے بھائیوں سے بری کیوں بنیں۔ حضرت فرماتے تھے کہ جب جائیداد بہنوں کے نام منتقل کر دی جائے، وہ سال دو سال اس سے فائدہ اٹھائیں اور پھر اپنی خوشی سے بھائیوں کے نام منتقل کر دیں، اصلی طیبِ خاطر تب معتبر ہے۔
جاری ہے۔۔۔
ماخوذ از بیان "اسلام اور انسانی حقوق" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہمٓ

No comments:

Post a Comment