Wednesday 24 August 2016

حضرت عبدالّٰلہ ابنِ مبارک ؒ کبھی رقہ شہر جاتے تو ایک نوجوان ان سے آ کر ملا کرتا اور مسائل وغیرہ پوچھتا۔ ایک مرتبہ جب رقہ جانا ہوا تو وہ نظر نہیں آیا۔ پوچھنے پہ لوگوں نے بتایا کہ اس پہ قرض بہت ہو گیا تھا۔ جس کا اس پہ قرض تھا اس نے اسے گرفتار کروا دیا اور اب وہ جیل میں ہے۔ حضرت عبدالّٰلہ ابنِ مبارک کو بہت دکھ ہوا۔ انہوں نے پوچھا کہ کتنا قرضہ ہو گیا تھا اور کس کا قرض تھا؟ لوگ نے بتایا کہ دس ہزار دینار قرض تھا اور فلاں شخص کا قرض تھا۔ آپ اس شخص کی تلاش میں نکلے اور اس سے جا کر کہا کہ ہمارا ایک دوست تمہارے قرض کی وجہ سے جیل میں ہے۔ میں اس کا قرض ادا کردیتا ہوں لیکن ایک شرط ہے۔ وہ یہ کہ میرے جیتے جی کسی کو نہیں بتاؤ گے کہ اس کا قرض کس نے ادا کیا تھا۔ اس نے وعدہ کر لیا۔

جب وہ نوجوان رہا ہوا تو حضرت عبدالّٰلہ ابنِ مبارک سے ملنے آیا۔ پوچھنے پہ اس نے بتایا کہ میں قرض نہ دے سکنے کی وجہ سے جیل میں تھا۔ پھر الّٰلہ تعالیٰ نے غیب سے ایک فرشتہ بھیج دیا جس نے میرا قرض ادا کر دیا اور مجھے رہائ مل گئ۔ حضرت عبدالّٰلہ ابنِ مبارک نے کہا کہ بس اب الّٰلہ تعالیٰ کا اس پر شکر ادا کرو ، اور میں بھی تمہارے لئے دعائیں  کر رہا تھا کہ تمہیں رہائ مل جائے۔

وہ نوجوان بعد میں کہتے ہیں کہ جب تک عبدالّٰلہ ابنِ مبارک زندہ رہے مجھے عمر بھر پتہ نہیں چلا کہ میرا قرضہ ادا کرنے والا شخص کون تھا، اس لیے کہ جو قرض خواہ تھا اس نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی زندگی میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔ ان کے انتقال کے بعد مجھے پتہ چلا کہ میری رہائ کا ذریعہ بننے والے حضرت عبدالّٰلہ ابنِ مبارک ہی تھے۔

ماخوذ از بیان "وقت کی قدر کریں" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment