Wednesday 31 August 2016

اسلام اور انسانی حقوق: مال کا تحفّظ ۲۔۳

رسول الّٰلہ ﷺ نے دشمنوں کے مالی حقوق کی پاسداری کی جو مثال پیش کی اس کی نظیر نہیں ملتی۔ غزوہ خیبر میں رسول الّٰلہ ﷺ اور ان کے صحابہ قلعہ خیبر کے گرد محاصرہ کئے ہوئے تھے۔ وہیں ایک چرواہا اجرت پہ بکریاں چرایا کرتا تھا۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ "محمد" ﷺ کا نام بہت سنا ہے۔ جا کے دیکھوں تو سہی کہ وہ کیسے آدمی ہیں۔ لوگوں نے بتایا کہ رسول الّٰلہ ﷺ فلاں خیمے کے اندر ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اس کو یقین نہیں آیا کہ مسلمانوں کا اتنا بڑا سردار اتنی معمولی سی کھجور کی جھونپڑی کےاندر ہے۔ اس نے جا کر پوچھا کہ آپ کیا پیغام لے کر آئے ہیں۔ آپ نے توحید کے عقیدے کی وضاحت فرمائی۔ اس نے پوچھا کہ اگر میں آپ کے اس پیغام کو قبول کر لوں تو میرا کیا مقام ہو گا؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہم تہیں سینے سے لگائیں گے، تم ہمارے بھائ ہو جاؤ گے اور جو حقوق سب کو حاصل ہوں گے وہ تمہیں بھی حاصل ہوں گے۔ قصّہ مختصر یہ کہ اس کے دل پہ ان باتوں کا ایسا اثر ہوا کہ وہ مسلمان ہو گیا۔

مسلمان ہونے کے بعد اس نے عرض کیا کہ اب آپ جو حکم دیں گے میں وہ کرنے کو تیّار ہوں۔ آپ ﷺ نے پہلا حکم یہ نہیں دیا کہ نماز پڑھو، یہ نہیں دیا کہ روزہ  رکھو۔ پہلا حکم یہ دیا کہ جو بکریاں تم چرانے کے لئے لے کر آئے ہو یہ تمہارے پاس امانت ہیں۔ پہلے ان کو واپس دے کر آؤ اور اس کے بعد آ کر پوچھنا کہ کیا کرنا ہے۔ اس نے حیران ہو کر پوچھا کہ یا رسول الّٰلہ ﷺ، یہ بکریاں تو ان دشمنوں کی ہیں جن پر آپ حملہ کرنے آئے ہیں۔ آپ ان کو واپس لوٹاتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ مالِ غنیمت جنگ کی حالت میں چھیننا تو جائز تھا، لیکن تم انہیں ایک معاہدے کے تحت، ایک وعدہ کر کے لے کر آئے ہو۔ اس معاہدے کا حق یہ ہے کہ ان کے مال کاتحفّظ کیا جائے۔ لہذا ان کو واپس کر کے آؤ۔ چنانچہ وہ چرواہا وہ بکریاں واپس کر کے آیا، پھر جہاد میں شامل ہوا، اور الّٰلہ تعالیٰ نے اسی جہاد میں انہیں شہادت عطا فرمائ۔ 

رسول الّٰلہ ﷺ نے عملاً کر کے یوں دکھایا کہ معاہدہ چاہے دشمن سے ہی کیوں نہ ہو، جب ایک دفعہ معاہدہ ہو گیا تو اب دشمن کے بھی مال کا تحفّظ کرنا ہے۔

ماخوذ از بیان "اسلام اور انسانی حقوق" از مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment