Sunday 30 April 2017

سورہٴ بقرہ: ٢٥٦ . پہلا حصّہ

لَآ إِكۡرَاهَ فِى ٱلدِّينِ‌ۖ قَد تَّبَيَّنَ ٱلرُّشۡدُ مِنَ ٱلۡغَىِّ‌ۚ فَمَن يَكۡفُرۡ بِٱلطَّـٰغُوتِ وَيُؤۡمِنۢ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱسۡتَمۡسَكَ بِٱلۡعُرۡوَةِ ٱلۡوُثۡقَىٰ لَا ٱنفِصَامَ لَهَا‌ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۔

"دین کے معاملے میں کوئ زبردستی نہیں ہے۔ ہدایت کا راستہ گمراہی سے ممتاز ہو کر واضح ہو چکا۔ اس کے بعد جو شخص طاغوت کا انکار کر کے الّٰلہ پر ایمان لے آئے گا اس نے ایک مضبوط کنڈا تھام لیا جس کے ٹوٹنے کا کوئ امکان نہیں۔ اور الّٰلہ خوب سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔"

اس آیت کو دیکھتے ہوئے بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں زبردستی نہیں ہے، حالانکہ اسلام میں جہاد کی تعلیم اس کے خلاف ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اسلام میں جہاد کی تعلیم لوگوں کو قبولِ ایمان پر مجبور کرنے کے لئے نہیں ہے، ورنہ جزیہ لے کر غیر مسلموں کو اپنی حفاظت میں رکھنے، اور ان کی جان و مال و آبرو کی حفاظت کرنے کے اسلامی احکام کیوں جاری ہوتے۔ بلکہ یہ حکم دفعِ فساد کے لئے ہے کیونکہ فساد الّٰلہ تعالیٰ کو ناپسند ہے، چنانچہ قرآن کریم میں الّٰلہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"یہ لوگ زمین میں فساد کرتے پھرتے ہیں اور الّٰلہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔" (۵: ۶۴)

اس لئے الّٰلہ تعالیٰ نے جہاد کے ذریعے فساد کرنے والوں کے فساد کو دور کرنے کا حکم دیا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع رحمتہ الّٰلہ علیہ

No comments:

Post a Comment