Sunday 3 April 2016

دین اپنا شوق پورا کرنے کا نام نہیں، اتّباع کا نام ہے

حضرت ڈاکٹر عبد الحئ ؒ فرماتے تھے، "میاں! ہر وقت کا تقاضہ دیکھو۔اس وقت کا تقاضہ کیا ہے؟ اس وقت مجھ سے مطالبہ کیا ہے؟ یہ مت دیکھو کہ اس وقت میرا دل کس کام کو چاہ رہا ہے۔ یہ دیکھو کہ اس وقت تقاضہ کس کام کا ہے، اس تقاضے کو پورا کرو۔ یہی الّلہ تبارک و تعالیّ کی مرضی ہے۔ تم نے تو اپنے ذہن میں بٹھا رکّھا تھا کہ روزانہ تہجّد پڑھا کروں گا، روزانہ اتنے پارے تلاوت کیا کروں گا، روزانہ اتنی تسبیحات پڑھا کروں گا۔ اب جب ان کاموں کا وقت آیا تو دل چاہ رہا ہے کہ یہ کام میں پورے کروں اور ذہن پر اس کام کا بوجھ ہے۔ اب عین وقت پر گھر میں سے بیمار ہو گئیں اور اس کے نتیجے میں ان کی تیمارداری، علاج اور دوا دارو میں لگنا پڑا۔ اور اس میں لگنے کی وجہ سے وہ معمول چھوٹنے لگا۔ اس وقت بڑا دل کڑھتا ہے کہ کیا ہو گیا۔ میرا تو آج کا معمول قضا ہو جائے گا۔ ارے! الّٰلہ تعالیٰ نے جس چکر میں ڈالا اس وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ کرو، اگر اس وقت وہ کام چھوڑ کر تلاوت کرنے بیٹھ جاؤ گے تو وہ الّٰلہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ اب اسی میں وہ ثواب ملے گا جو تلاوت کرنے میں ملتا۔ اسی میں وہ ثواب ملے گا جو تسبیحات میں ملتا۔ یہ ہے اصل دین۔

حضرت مولانا مسیح الّٰلہ خان ؒ فرماتے تھے کہ اپنا شوق پورا کرنے کا نام دین نہیں۔ الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسول ﷺ کی اتباع کا نام دین ہے۔ مثلاً گھر میں ماں بیمار پڑی ہے، باپ بیمار پڑا ہے۔ لیکن کسی کو شوق ہو گیا کہ عالم بنیں گے، چنانچہ ماں باپ کو بیمار چھوڑ کر مدرسہ میں پڑھنے چلے گئے۔ یہ دین کا کام نہیں ہے۔ یہ اپنا شوق پورا کرنا ہے۔ اس وقت دین کا کام یہ ہے کہ یہ سب چھوڑ کر ماں باپ کی خدمت کرو۔

کسی کو جہاد میں جانے کا شوق ہو گیا، کسی کو مفتی، عالم بننے کا شوق ہو گیا، کسی کو تبلیغ میں جانے کا شوق ہو گیا۔ اور اس شوق کو پورا کرنے کے نتیجے میں ان حقوق کا کوئ خیال نہیں جو اس پر عائد ہو رہے ہیں۔ اس بات کا کوئ خیال نہیں کہ اس وقت میں ان حقوق کا تقاضہ کیا ہے؟ ارے بھائ: یہ سب کام اپنے اپنے وقت پر الّٰلہ تعالیٰ کی رضا کے کام ہیں۔ یہ دیکھو کہ کس وقت کا کیا تقاضہ ہے؟ تم سے کس وقت کیا مطالبہ ہو رہا ہے؟ اس مطالبے اور تقاضے پر عمل کرو۔ اپنے دل و دماغ سے ایک راستہ متعین کر لیا اور اس پر چل کھڑے ہوئے، یہ دین نہیں ہے۔ دین یہ ہے کہ یہ دیکھو وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ اس وقت کس بات کا حکم دے رہے ہیں؟

ماخوذ از بیان "دین کی حقیقت، تسلیم و رضا"، مفتی مولانا محمد تقی عثمانیؒ

No comments:

Post a Comment