Tuesday 5 April 2016

عبادت میں سب سے پسندیدہ راستہ الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسول کا بتایا ہوا راستہ ہے

حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ تہجّد کے وقت سرکارِ دو عالم ﷺ اپنے گھر سے نکلے۔ جب وہ حضرت صدیق اکبر ؓ کے گھر کے پاس سے گزرے تو آپ نے دیکھا کہ وہ عاجزی کے ساتھ نہایت آہستہ آواز سے تہجّد کی نماز میں تلاوت کر رہے ہیں۔ آگے جا کر دیکھا کہ حضرت فاروق اعظم ؓ تہجّد پڑھ رہے تھے اور اس میں بلند آواز سے قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے اور ان کی تلاوت کی آواز باہر تک سنائ دے رہی تھی۔ آپ یہ دیکھتے ہوئے واپس تشریف لے آئے۔

بعد میں آپﷺ نے حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم رضی الّٰلہ عنہما دونوں کو اپنے پاس بلایا اور پہلے حضرت صدیق اکبر ؓ سے فرمایا کہ میں رات کو تہجّد کے وقت آپ کے پاس سے گزرا تو آپ بہت آہستہ آواز سے تلاوت کر رہے تھے۔ آپ اتنی آہستہ آواز سے کیوں تلاوت کر رہے تھے؟ حضرت صدیق اکبر ؓ نے فرمایا کہ یا رسول الّٰلہ ﷺ "اسمعت من ناجیت" یعنی جس ذات سے میں مناجات کر رہا تھا اس کو تو سنا دیا، اب آواز بلند کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس لیے میں آہستہ تلاوت کر رہا تھا۔

پھر حضرت فاروق اعظم ؓ سے پوچھا کہ تم زور زور سے تلاوت کر رہے تھے۔ اس کی کیا وجہ تھی؟ انہوں نے جواب میں فرمایا، "انی او قظ الوسنان وا طرد الشیطان" میں زور سے اس لیے تلاوت کر رہا تھا کہ جو لوگ پڑے سو رہے ہیں وہ بیدار ہو جائیں، اور شیطان بھاگ جائے۔

اب ذرا دیکھیے کہ دونوں کی باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں، لیکن اس کے بعد حضور اقدس ﷺ نے ان دونوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے ابو بکر! تم نے اپنی سمجھ سے یہ راستہ اختیار کیا کہ بہت آہستہ تلاوت کرنی چاہیے، اور اے فاروق! تم نے اپنی سمجھ سے یہ راستہ اختیار کیا کہ زور سے تلاوت کرنی چاہیے، لیکن الّٰلہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ نہ زیادہ زور سے تلاوت کرو، اور نہ زیادہ آہستہ تلاوت کرو، بلکہ معتدل آواز سے تلاوت کرو، اسی میں زیادہ نور اور برکت ہے اور اسی میں زیادہ فائدہ ہے، اس کو اختیار کرو۔

معلوم ہوا کہ عبادت کے اندر اپنی طرف سے کوئ راستہ اختیار کر لینا الّٰلہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا پسندیدہ نہیں جتنا الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسول کا بتایا ہوا راستہ پسندیدہ ہے۔ بس جو راستہ ہم نے بتایا ہے وہ راستہ اختیار کرو، اس میں جو نور اور فائدہ ہے وہ کسی اور میں نہیں۔

دین کی ساری روح یہ ہے کہ اطاعت اور عبادت الّٰلہ اور الّٰلہ کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کرنی ہے، اپنی طرف سے کوئ طریقہ گھڑ لینا درست نہیں۔

ماخوذ از بیان "بدعت ایک سنگین گناہ"، از حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی ؒ مدظلہم

No comments:

Post a Comment