Sunday 3 April 2016

جو کچھ ہے ہمارے حکم میں ہے!

 الّٰلہ تبارک و تعالیٰ نے حج بڑی عجیب و غریب عبادت بنائ ہے۔ اس میں الّٰلہ تعالیٰ نے قدم قدم پر قاعدوں کے بت توڑے ہیں۔ مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ لیکن آٹھ ذی الحجّہ کو حکم دیا جاتا ہے کہ مسجد ِ حرام چھوڑو اور منیٰ میں جا کر پڑاؤ ڈالو۔ نہ وہاں حرم، نہ کعبہ، نہ وقوف، نہ رمی۔ بس یہ حکم دے دیا کہ ایک لاکھ نمازوں کا ثواب چھوڑو اور منیٰ کے جنگل میں جا کر پانچ نمازیں ادا کرو۔ یہ سب کیوں ہے؟ اس لیے کہ یہ بتانا مقصود ہے کہ نہ کعبہ میں کچھ رکھا ہے، نہ حرم میں کچھ رکھا ہے۔ جو کچھ ہے ہمارے حکم میں ہے۔ جب ہم نے کہہ دیا کہ مسجد حرام میں جا کر نماز پڑھو، تو ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملے گا۔ لیکن جب ہم نے کہہ دیا کہ مسجد حرام کو چھوڑو تو اب اگر کوئ شخص مسجدِ حرام میں نماز پڑھے گا تو ایک لاکھ نمازوں کا ثواب کیا ملتا، الٹا گناہ ہو گا۔ اس لئے کہ اس نے ہمارے حکم کو توڑ دیا۔ 

اسی طرح نماز کو وقت کے ساتھ پابند کیا گیا ہے۔ مغرب کی نماز کے بارے میں حکم ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے پڑھ لو۔ لیکن عرفات کے میدان میں مغرب کی نماز جلدی پڑھو گے تو نماز ہی نہ ہو گی۔ سبق یہ دیا جا رہا ہے کہ یہ مت سمجھ لینا کہ اس مغرب کے وقت میں کچھ رکھا ہے۔ جو کچھ ہے وہ ہمارے حکم میں ہے۔ جب ہم نے کہا کہ جلدی پڑھو تو جلدی پڑھنا باعثِ ثواب تھا۔ اور جب ہم نے کہہ دیا کہ مغرب کا یہ وقت گزار دو اور مغرب کی نماز عشاٴ کے ساتھ ملا کر پڑھو تو اب تمہارے ذمّے وہی فرض ہے۔ تربیت اس بات کی دی جا رہی ہے کہ کسی چیز کو اپنی ذات میں مقصود نہ سمجھنا۔ نہ نماز اپنی ذات میں مقصود ہے، نہ روزہ اپنی ذات میں مقصود ہے۔ نہ کوئ اور عبادت اپنی ذات میں مقصود ہے۔ اصل مقصود الّٰلہ جلّ جلالہ کی اطاعت ہے۔

ماخوذ از بیان "دین کی حقیقت تسلیم و رضا"، اصلاحی خطبات جلد اوّل، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانیؒ

No comments:

Post a Comment