Sunday 3 April 2016

دوسروں کو اذیّت نہ پہنچانا

حضرت تھانوی ؒ فرماتے تھے کہ جب اپنے متعلّقین (مریدین ) میں سے کسی کے بارے میں سنتا ہوں کہ وہ معمولات (نوافل عبادات) کی پابندی نہیں کرتا تو دل میں افسوس پیدا ہوتا ہے، جب کسی کے بارے میں سنتا ہوں کہ اس نے بغیر کسی عذر کےفرائض قضا کردیے ہیں تو دل میں شکایت پیدا ہوتی ہے، لیکن جب کسی کے بارے میں یہ سنتا ہو ں کہ اس نے بلا عذر کسی انسان کو تکلیف پہنچائ ہے یا کسی کا مال ناحق لے لیا ہے تو اس سے نفرت محسوس ہونے لگتی ہے۔

جو لوگ خانقاہ میں جا کر رہا کرتے تھے انہوں نے لکھا ہے کہ حضرت خود سے کبھی کسی سے نہیں پوچھتے تھے کہ اس کے معمولات کیا ہیں مثلاً وہ کتنی تسبیحات یا نوافل پڑھتا ہے یا پابندی سے پڑھتا ہے کہ نہیں پڑھتا۔ اسی طرح جب  فجر کی جماعت کا وقت ہوتا اور کوئ گہری نیند سو رہا ہوتا تو بضا اوقات حضرت اٹھانے سے منع فرما دیتے کہ خدا جانے وہ رات کتنی دیر تک عبادت کرتا رہا ہو گا اور اس وقت اٹھانے سے اسے شدید تکلیف نہ ہو جائے۔ لیکن اگر حضرت کو اپنے مریدین میں سے کسی کے بارے میں پتہ چل جاتا کہ اس نے ناحق کسی کو جسمانی یا ذہنی تکلیف پہنچائ ہے یا کسی کا مال ناحق ناجائز طور پر لے لیا ہے تو حضرت کے چہرے کا رنگ بدل جاتا اور شدید غصے میں آ جاتے اور فرماتے کہ ہم میں تم میں مناسبت نہیں ہے، اس خانقاہ سے نکل جاؤ اور آئندہ یہاں نہ آنا۔ اسی سلسلے میں بہت دفعہ یہ بھی فرماتے کہ بزرگ بننا ہو، شیخ بننا ہو، پیر بننا ہو تو کہیں اور جاؤ، آدمی بننا ہو تو یہاں آؤ۔ بزرگ بننا آسان ہے، آدمی بننا مشکل ہے۔ بزرگی بیچاری کا کیا ہے، وہ تو ایک دن میں ساتھ ہو لیتی ہے۔ 

No comments:

Post a Comment