Wednesday 29 March 2017

کیا تمہیں ان لوگوں کا حال معلوم نہیں ہوا جو موت سے بچنے کے لئے اپنے گھروں سے نکل آئے تھے، اور وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ چنانچہ الّٰلہ نے ان سے کہا” "مر جاؤ"، پھر انہیں زندہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ الّٰلہ لوگوں پر بہت فضل فرمانے والا ہے، لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ (سورہ البقرہ: ۲۴۳)

پہلا حصّہ

تفسیر ابنِ کثیر میں اس آیت کی تفسیر میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس آیت میں ایک ایسی قوم کے قصّے کی طرف اشارہ ہے جو طاعون کے خوف سے اپنا شہر چھوڑ کر ایک اور جگہ جا کر مقیم ہو گئے تھے لیکن موت نے انہیں وہاں بھی نہ چھوڑا۔ 

حضرت مفتی محمد شفیع ؒ نے اس آیت کی تفسیر میں پہلا مسئلہ یہ بیان فرمایا ہے کہ طاعون سے یا جہاد وغیرہ سے بھاگنا جان بچانے کا ذریعہ نہیں ہو سکتا، اور نہ ان میں قائم رہنا موت کا باعث ہو سکتا ہے۔ بلکہ موت کا ایک وقت معّین ہے، اس میں نہ کمی ہو سکتی ہے اور نہ زیادتی۔ ورنہ جس آدمی کے پاس وسائل ہوں وہ ہر بیماری کی جگہ سے اور لڑائ کی جگہ سے بھاگ جایا کرے، اور اسے کبھی موت ہی نہ آئے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہر شخص کو اپنا وقت پورا ہونے پہ موت آنی ہے چاہے اس کا بہانہ کچھ بھی بنے۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

No comments:

Post a Comment