Friday 31 March 2017

کیا تمہیں ان لوگوں کا حال معلوم نہیں ہوا جو موت سے بچنے کے لئے اپنے گھروں سے نکل آئے تھے، اور وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ چنانچہ الّٰلہ نے ان سے کہا” "مر جاؤ"، پھر انہیں زندہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ الّٰلہ لوگوں پر بہت فضل فرمانے والا ہے، لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ (سورہ البقرہ: ۲۴۳)

تیسرا حصّہ

تفسیرِ قرطبی میں ہے کہ حضرت فاروقِ اعظمؓ نے ایک دفعہ ملکِ شام کے قصد سے سفر کیا۔ سرحد کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ شام میں سخت طاعون پھیلا ہوا ہے۔ فاروقِ اعظم ؓ نے طاعون کی شدّت کی خبر سنی تو اسی مقام پہ ٹھہر کر صحابہٴ کرام ؓ سے مشورہ کیا کہ ہمیں ملکِ شام میں اس وقت جانا چاہئے یا واپس ہونا مناسب ہے۔ حضرت عبادالرحمٰن بن عوفؓ نے اطلاع دی کہ رسول الّٰلہ ﷺ کا ارشاد اس معاملے کے متعلّق یہ ہے:

"رسول الّٰلہ ﷺ نے (طاعونی گلٹی کے) درد کا ذکر کیا تو فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے جس سے بعض امتّوں کو عذاب دیا گیا تھا، پھر اس کا کچھ بقیہ رہ گیا۔ اب اس کا یہ حال ہے کبھی چلا جاتا ہے اور پھر آ جاتا ہے۔ تو جو شخص یہ سنے کہ فلاں خطّہٴ زمین میں یہ عذاب آیا ہوا ہے تو اس کو چاہئے کہ اس خطّہٴ زمین میں نہ جائے، اور جو شخص اس خطّے میں پہلے سے موجود ہے تو طاعون سے بھاگنے کے لئے وہاں سے نہ نکلے۔" (بخاری)

حضرت فاروقِ اعظم ؓ نے جب یہ حدیث سنی تو رفقاء کو واپسی کا حکم دے دیا۔ حضرت ابو عبیدہؓ نے سنکر فرمایا، "اے امیر المومنین، کیا آپ الّٰلہ تعالیٰ کی تقدیر سے بھاگنا چاہتے ہیں؟" فاروقِ اعظم ؓ نے جواب میں فرمایا، اے ابو عبیدہ! کاش یہ بات کوئ اور کہتا (یعنی تمہاری زبان سے ایسی بات قابلِ تعجّب ہے)، اور پھر فرمایا، "بیشک ہم الّٰلہ کی تقدیر سے الّٰلہ ہی کی تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں۔"

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

No comments:

Post a Comment