Thursday 23 February 2017

امۡ حَسِبۡتُمۡ أَن تَدۡخُلُواْ ٱلۡجَنَّةَ وَلَمَّا يَأۡتِكُم مَّثَلُ ٱلَّذِينَ خَلَوۡاْ مِن قَبۡلِكُم‌ۖ مَّسَّتۡہُمُ ٱلۡبَأۡسَآءُ وَٱلضَّرَّآءُ وَزُلۡزِلُواْ حَتَّىٰ يَقُولَ ٱلرَّسُولُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُ ۥ مَتَىٰ نَصۡرُ ٱللَّهِ‌ۗ أَلَآ إِنَّ نَصۡرَ ٱللَّهِ قَرِيبٌ۬ (سورہ البقرہ:۲۱۴)

کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنّت میں (یونہی) داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تمہیں اس جیسے حالات پیش نہیں آئے جیسے ان لوگوں کو پیش آئے تھے جو تم سے پہلے ہو گذرے ہیں۔ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں، اور انہیں ہلا ڈالا گیا، یہاں تک کہ رسول اور ان کے ایمان والے ساتھی بول اٹھے کہ "الّلہ کی مدد کب آئے گی؟" یاد رکھو! الّلہ کی مدد نزدیک ہے۔ (سورہ البقرہ:۲۱۴)

حصّہ اوّل

اس آیت سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بغیر مشقّت و محنت کے اور بغیر مصائب و آفات میں مبتلا ہوئے کوئ شخص جنّت میں نہ جائے گا، حالانکہ ارشاداتِ قرآنی اور ارشاداتِ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ بہت سے گناہ گار محض اللّہ تعالیٰ کے لطف و کرم اور مغفرت سے جنّت میں داخل ہوں گے۔ ان پر کوئ مشقّت بھی نہ ہو گی۔ وجہ یہ ہے کہ مشقّت و محنت کے درجات مختلف ہیں۔ ادنیٰ درجہ نفس و شیطان سے مزاحمت کر کے یا دینِ حق کے مخالفین کے ساتھ مخالفت کر کے اپنے عقائد کا درست کرنا ہے، اور یہ ہر مومن کو حاصل ہے۔ آگے اوسط اور اعلیٰ درجات ہیں، جس درجہ کی محنت و مشقّت ہو گی اسی درجہ کا دخولِ جنّت ہو گا۔ اس طرح محنت و مشقّت سے کوئ خالی نہ رہا۔ ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا: "سب سے زیادہ سخت بلائیں اور مصیبتیں انبیاء علیہم السلام کو پہنچتی ہیں، ان کے بعد جو ان کے قریب تر ہیں۔"

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

No comments:

Post a Comment