Saturday 25 February 2017

کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنّت میں (یونہی) داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تمہیں اس جیسے حالات پیش نہیں آئے جیسے ان لوگوں کو پیش آئے تھے جو تم سے پہلے ہو گذرے ہیں۔ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں، اور انہیں ہلا ڈالا گیا، یہاں تک کہ رسول اور ان کے ایمان والے ساتھی بول اٹھے کہ "الّلہ کی مدد کب آئے گی؟" یاد رکھو! الّلہ کی مدد نزدیک ہے۔ (سورہ البقرہ:۲۱۴)

دوسرا حصّہ

دوسری بات یہاں قابلِ نظر یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور ان کے ساتھیوں کا یہ عرض کرنا کہ الّلہ تعالیٰ کی مدد کب آئے گی کسی شک و شبہ کی وجہ سے نہ تھا جو ان کی شان کے خلاف ہے، بلکہ اس سوال کا منشاء یہ تھا کہ الّلہ تعالیٰ نے اگر چہ مدد کا وعدہ فرمایا ہے مگر اس کا وقت اور مقام متعیّن نہیں فرمایا۔ اس لیے حالتِ اضطرار میں ایسے الفاظ عرض کرنے کا مطلب یہ تھا کہ مدد جلد بھیجی جائے۔ اور ایسی دعا کرنا توکّل یا منصبِ نبوّت کے منافی نہیں، بلکہ حق تعالیٰ اپنے بندوں کی الحاح و زاری کو پسند فرماتے ہیں، اس لیے انبیاء اور صلحاء امّت اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

No comments:

Post a Comment