Monday 27 February 2017

"لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ (الّلہ کی خوشنودی کے لیے) کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجیے کہ جو مال بھی تم خرچ کرو وہ والدین، قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہونا چاہیے۔ اور تم بھلائ کا جو کام بھی کرو، الّلہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔" (سورہ البقرہ:۲۱۵) 

حصّہ اوّل

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ آیتیں فرض زکوٰة کے متعلّق نہیں کیونکہ زکوٰة کے لیے تو نصابِ مال بھی مقرّر ہے، اور اس میں جتنی مقدار خرچ کرنا فرض ہے وہ بھی متعیّن و مقرّر ہے۔ ان دونوں آیتوں میں نہ کسی نصابِ مال کی قید ہے، نہ خرچ کرنے کی مقدار بتائ گئ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں آیتیں نفل صدقات کے متعلّق ہیں۔ اس سے یہ شبہ بھی دور ہو گیا کہ پہلی آیت میں خرچ کا مصرف والدین کو بھی قرار دیا گیا ہے حالانکہ ماں باپ کو زکوٰة دینا آنحضرت ﷺ کی تعلیم کے مطابق جائز نہیں، کیونکہ ان آیتوں کا تعلّق فریضہٴ زکوٰة سے ہے ہی نہیں۔

جاری ہے۔۔۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

No comments:

Post a Comment