Saturday 19 March 2016

اسلام کے احکام کے تین حصّے

ماخوذ از "عقل کا دائرہ کار"، اصلاحی خطبات، جلد اوّل

ایک سوال جو اکثر ہمارے پڑھے لکھے طبقے کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ صاحب! آج سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ساری دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کر رہی ہےلیکن ہمارا قرآن اور ہماری حدیث سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں کوئ فارمولا ہمیں نہیں بتاتاکہ کس طرح ایٹم بم بنائیں، کس طرح ہائیڈروجن بم بنائیں۔ اس کا کوئ فارمولا ہمیں نہ تو قرآن کریم میں ملتا ہے اور نہ حدیثﷺ میں ملتا ہے۔ اس کی وجہ سے بعض لوگ احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں کہ صاحب! دنیا چاند اور مرّیخ پر پہنچ رہی ہے اور ہمارا قرآن ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں بتاتا کہ چاند پہ کیسے پہنچیں؟ 

اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارا قرآن ہمیں یہ باتیں ا س لیے نہیں بتاتا کہ وہ دائرہ عقل کا ہے۔ وہ تجربہ کا دائرہ ہے۔ وہ ذاتی محنت اور کوشش کا دائرہ ہے۔ الّٰلہ تعالیٰ نے اس کو انسان کے ذاتی تجربے، عقل اور کوشش پر چھوڑا ہے کہ جو شخص جتنی کوشش کرے گا اور عقل کو استعمال کرے گا، تجربے کو استعمال کرے گا، اس میں آگے بڑھتا جائے گا۔۔۔

۔۔۔اسلام نے اپنے احکام کے تین حصّے کیے ہیں۔ ایک حصّہ وہ ہے جس میں قرآن و سنّت کی نصِ قطعی موجود ہے۔ جس میں قیامِ قیامت تک آنے والے حالات کہ وجہ سے کوئ تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ یہ اصول غیر متبدل ہیں۔ زمانہ کیسا ہی بدل جائے لیکن اس میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔ دوسرا حصّہ وہ ہے جس میں اجتہاد اور استنباط کی گنجائش رکھی گئ ہے، اور اس میں اس درجہ کی نصوصِ قطعیہ موجود نہیں ہیں جو زمانے کے حال پر اپلائ کریں۔ اس میں اسلامی احکام کی لچک  (elasticity) موجود ہے۔ اور احکام کا تیسرا حصّہ وہ ہے جس کے بارے میں قرآن و سنّت خاموش ہیں۔ جن کے بارے میں کوئ ہدایت اور کوئ رہنمائ نہیں کی گئ۔ جن کے بارے میں قرآن و سنّت نے کوئ حکم نہیں دیا۔ حکم کیوں نہیں دیا؟ اس لیے کہ اس کو ہماری عقل پر چھوڑ دیا ہے۔ اور اس کا اتنا وسیع دائرہ ہے کہ ہر دور میں انسان اپنی عقل اور تجربہ کو استعمال کر کے اس خالی میدان میں ترقی کر سکتا ہے اور ہر دور کی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔۔۔

No comments:

Post a Comment