Saturday 12 March 2016

صبر کی حقیقت

(حضرت مد ظلّہ کے ملفوظات قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کر نے کے کچھ زمانے بعد احقر مزید تعلیم کے لیے بیرونِ ملک چلا گیا تھا اس لیے کچھ ملفوظات پر حضرت سے نظرِ ثانی نہیں کروا سکا۔ یہ ملفوظ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ احقر کی کوشش تو یہی تھی کہ حضرت کے الفاظ بعینہ اسی طرح سے قلم بند کر لے لیکن اگر پھر بھی نا دانستہ کوئ غلطی ہوئ ہو تو الٰلہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔ آمین)

ایک خادم نے جو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ جا رہے تھے عرض کیا کہ "مجھے امّی وغیرہ اور سب گھر والوں کو چھوڑ کر جانے کا بڑا صدمہ ہے۔" فرمایا، "ہاں بھئ، وہ طبعی صدمہ تو اپنی جگہ ہے۔" پھر ہنس کر فرمایا، "وہ نہ ہو تو پریشانی کی بات ہے۔ اس کا ہونا پریشانی کی بات نہیں۔ البتّہ یہ سمجھنا چاہیے کہ سب سے زیادہ ترقی جو ہوتی ہےوہ صبر کی حالت میں ہوتی ہے۔ اگر آدمی پر مشکلات پیش آئیں اور ان پر اچھی طرح صبر کرے تو جتنی ترقی اس سے ہوتی ہے کسی عمل سے نہیں ہوتی۔"  

اس پر ایک اور خادم نے پوچھا، "حضرت صبر کیسے کیا جاتا ہے؟ مطلب یہ کہ اگر مشکل پیش آتی ہے تو آدمی اس کو کسی نہ کسی طرح برداشت کرتا ہی ہے۔یہ کیسے پتہ چلے کہ صبر ہوا کہ نہیں؟" فرمایا، "صبر کا طریقہ یہ ہے کہ جب کوئ مشکل پیش آئے تو آدمی اس بات کا مراقبہ کرے کہ ’ہاں بھئ۔ بیشک اس بات کی وجہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی، اور اس کے ہونے سے مجھے تکلیف بھی بہت ہو رہی ہے، لیکن الحمد الّٰلہ میں دل سے اس پر راضی ہوں۔ مجھے الّٰلہ تعالیٰ سے کوئ شکوہ نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ جو کچھ ہے میرے ہی فائدے کے لیے ہے، چاہے مجھے اس کا فائدہ سمجھ آئے کہ نہ آئے۔‘ بس اسی کا مراقبہ کرتا رہے۔ یہی صبر ہے۔"



No comments:

Post a Comment