Wednesday 23 March 2016

سفارش کے احکام

حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جب کوئ حاجت مند اپنی ضرورت لے کر آتا اور اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے کوئ درخواست کرتا تو اس وقت آنحضرت ﷺ کی مجلس میں جو لوگ بیٹھے ہوتے تھے، آپ ان کی طرف متوجّہ ہو کر فرماتے کہ تم اس حاجت مند کی مجھ سے سفارش کر دو کہ "آپ اس کی حاجت پوری کر دیں" تا کہ تمہیں بھی سفارش کا اجر و ثواب مل جائے۔ البتّہ فیصلہ الّٰلہ تعالیٰ اپنے نبی کی زبان پر وہی کرائے گا جس کو اّٰللہ تعالیٰ پسند فرمائیں گے۔

لیکن سفارش کرنے کے کچھ احکام ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ سفارش ہمیشہ ایسے کام کی ہونی چاہیے جو جائز اور برحق ہو۔ اس لیے کہ سفارش جس طرح اس شخص کی حاجت براری کا ایک ذریعہ ہے، وہاں ساتھ ساتھ ایک شہادت اور گواہی بھی ہے۔ جب آپ کسی شخص کے حق میں سفارش کرتے ہیں تو آپ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ میری نظر میں یہ شخص اس کام کے کرنے کا اہل ہے لہذا میں آپ سے سفارش کرتا ہوں کہ اس کو یہ کام دے دیا جائے۔ تو یہ ایک گواہی ہے، اور گواہی کے اندر اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ وہ واقعہ کے خلاف نہ ہو۔ اگر حقیقت میں وہ نااہل ہے تو یہ گواہی حرام ہوئ اور باعثِ ثواب ہونے کے بجائے الٹا باعثِ گناہ بن گئ۔

دوسری بات یہ ہے کہ سفارش ایسے کام کے لیے ہونی چاہیے جو کام شرعاً جائز ہو، لہذا ناجائز کام کرانے کے لیے سفارش کرنا کسی حال میں جائز نہیں۔ حضرت حکیم الامّت قدس الّٰلہ سرّہ نے یہی بات چندےکے بارے میں بیان فرمائ کہ اگر مجمع کے اندر چندہ کا اعلان کر دیا تو اب جس شخص کا چندہ دینے کا دل نہیں بھی چاہ رہا ہے اس نے شرما شرمی میں چندہ دے دیا کہ اگر نہیں دیا تو ناک کٹ جائے گی۔ اور حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ "کسی مسلمان کا مال اس کی خوش دلی کے بغیر حلال نہیں۔" لہذا اس طریقے سے چندہ کرنا جائز نہیں۔

تیسری بات یہ ہے کہ سفارش ایک مشورہ ہے، دباؤ ڈالنا نہیں ہے۔ حضور اقدس ﷺ نے مشورہ کے بارے میں فرمایا کہ "جس شخص سے مشورہ لیا جائے وہ امانت دار ہے۔" یعنی اس کا فرض ہے کہ اپنی دیانت اور امانت کے لحاظ سے جس بات کو بہتر سے بہتر سمجھتا ہو وہ مشورہ لینے والے کو بتا دے۔ پھر جس کو مشورہ دیا گیا ہے وہ اس بات کا پابند نہیں ہے کہ آپ کے مشورے کو ضرور قبول کرے۔ اگر وہ رد بھی کردے تو اس کو اختیار ہے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ اگر مشورہ اور سفارش نہ مانی جائے تو اس پر کوئ ناراضگی اور ناگواری نہ ہونی چاہیے۔

اگر ان چار چیزوں کی رعایت کے ساتھ سفارش کی جائے گی تو اس کی وجہ سے کوئ فساد برپا نہیں ہو سکتا۔

ماخوذ از وعظ "سفارش" از مفتی مولانا محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

No comments:

Post a Comment