Saturday 12 March 2016

حبّ ِ جاہ کی تعریف


(حضرت مد ظلّہ کے ملفوظات قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کر نے کے کچھ زمانے بعد احقر مزید تعلیم کے لیے بیرونِ ملک چلا گیا تھا اس لیے کچھ ملفوظات پر حضرت سے نظرِ ثانی نہیں کروا سکا۔ یہ ملفوظ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ احقر کی کوشش تو یہی تھی کہ حضرت کے الفاظ بعینہ اسی طرح سے قلم بند کر لے لیکن اگر پھر بھی نا دانستہ کوئ غلطی ہوئ ہو تو الٰلہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔ آمین)

ایک خادم نے پوچھا، "حضرت! حبّ ِ جاہ کیا ہوتی ہے؟ مہربانی فرما کر مثال کے ساتھ سمجھا دیں۔" فرمایا، "حبّ ِ جاہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے دلوں پر اس طرح میرا قبضہ ہو جائے، لوگوں کے قلوب اس طرح میرے لیے مسخّر ہو جائیں کہ میں ان سے جو جائز، ناجائز کام چاہوں کروا سکوں۔" انہوں نے سوال کیا، "حضرت! اگر کسی میں یہ شوق ہو کہ لوگ میری تعریف کریں، کام نکلوانے یا نہ نکلوانے کی فکر نہ ہو تو کیا یہ بھی گناہ ہے؟" فرمایا، "یہ بھی مذموم ہے۔ اگر ایسا خیال آئے تو آدمی یہ سوچے کہ اگر کوئ دوسرا میری تعریف کر بھی دے تو کیا حاصل۔ اس نے جو بات کہی وہ تو ہوا میں اڑ گئ۔ اب تو یہی ہو سکتا ہے کہ آدمی یا تو اس سے بار بار کہے کہ جناب، ایک دفعہ پھر سے یہ الفاظ دہرا دیجیے۔ یا پھر اس کی باتوں کو دل ہی دل میں سوچ کر مزا لیتا رہے۔ اس سے حاصل کیا ہوا؟ دوسرے کی تعریف میں رکھا ہی کیا ہے؟"

No comments:

Post a Comment