Saturday 10 December 2016

سورة البقرة: ۱۴۳

وَكَذَٲلِكَ جَعَلۡنَـٰكُمۡ أُمَّةً۬ وَسَطً۬ا لِّتَڪُونُواْ شُہَدَآءَ عَلَى ٱلنَّاسِ وَيَكُونَ ٱلرَّسُولُ عَلَيۡكُمۡ شَهِيدً۬ا‌ۗ ۔۔۔

"اور اسی طرح تو ہم نے تم کو ایک معتدل امّت بنایا ہے کہ تم دوسرے لوگوں پر گواہ بنو، اور رسول تم پر گواہ بنے۔۔۔" 

لفظ وسط بمعنی اوسط ہے، اور خیرالامور اور افضل اشیاء کو وسط کہا جاتا ہے۔ اعتدال کے لفظی معنی ہیں برابر ہونا۔ یہ لفظ عدل سے مشتق ہے، اس کے معنی بھی برابر کرنے کے ہیں۔

ترمذی میں بروایتِ ابو سعید خدریؓ آنحضرت ﷺ سے لفظ وسط کی تفسیر عدل سے کی گئ ہے، جو بہترین کے معنوں میں آیا ہے۔ (قرطبی) اس آیت میں امّتِ محمدیہ ﷺ کی ایک امتیازی فضیلت و خصوصیت کا ذکر ہے کہ وہ ایک معتدل امّت بنائ گئ۔ اس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جس طرح ہم نے مسلمانوں کو وہ قبلہ عطا کیا جو سب سے اشرف و افضل ہے اسی طرح ہم نے امّتِ اسلامیہ کو ایک خاص امتیازی فضیلت یہ عطا کی ہے کہ اس کو ایک معتدل امّت بنایا ہے۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ 

No comments:

Post a Comment