Monday 5 December 2016

سورة البقرة:۸۳

"اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے پکا عہد لیا تھا کہ: "تم الله کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے، اور والدین سے اچھا سلوک کرو گے، اور رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں اور مسکینوں سے بھی۔ اور لوگوں سے بھلی بات کہنا، اور نماز قائم کرنا اور زکوٰة دینا۔۔۔" 

"قولو للناس حسنا" سے مراد یہ ہے کہ انسان جب لوگوں سے خطاب کرے تو نرمی سے، اور خوشروئی اور کشادہ دلی سے بات کرے چاہے مخاطب نیک ہو یا بد، مسلم ہو یا غیر مسلم۔ ہاں دین کے معاملے میں مداہنت اور اس کی خاطر سے حق پوشی نہ کرے۔ وجہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے جب موسیٰ اور ہارون علیہما السّلام کو فرعون کی طرف بھیجا تو یہ ہدایت نامہ دیا کہ "سو کہو اس سے بات نرم شاید وہ سوچے یا ڈرے "(سورة طٰهٰ:۴۴) تو آج جو کلام کرنے والا ہے وہ حضرت موسیٰ ؑ سے افضل نہیں اور مخاطب کتنا ہی برا ہو وہ فرعون سے بڑا نافرمان نہیں۔

طلحہ بن عمرؒ کہتے ہیں کہ میں نے امامِ تفسیر و حدیث عطاؒ سے کہا کہ آپ کے پاس فاسد عقیدے والے لوگ بھی جمع رہتے ہیں، مگر میرے مزاج میں تیزی ہے۔ میرے پاس ایسے لوگ آتے ہیں تو میں ان کو سخت باتیں کہدیتا ہوں۔ حضرت عطاؒ نے فرمایا کہ ایسا نہ کیا کرو، کیونکہ حق تعالیٰ کا حکم ہے کہ "قولو للناس حسنا"، اس میں تو یہودی و نصرانی بھی شامل ہیں۔ مسلمان خواہ کیسا ہی ہو وہ کیوں نہ داخل ہو گا۔ (قرطبی)

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ

No comments:

Post a Comment