Sunday 18 December 2016

وَلَا تَقُولُواْ لِمَن يُقۡتَلُ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمۡوَٲتُۢ‌ۚ بَلۡ أَحۡيَآءٌ۬ وَلَـٰكِن لَّا تَشۡعُرُونَ (سورة البقرة:۱۵۴)

"اور جو لوگ الله کے راستے میں قتل ہوں ان کو مردہ نہ کہو۔ دراصل وہ زندہ ہیں مگر تم کو (ان کی زندگی کا) احساس نہیں ہوتا۔" 

اسلامی روایات کی رو سے ہر مرنے والے کو برزخ میں ایک خاص قسم کی حیات ملتی ہے جس سے وہ قبر کے عذاب یا ثواب کو محسوس کرتا ہے۔ اس میں مومن و کافر یا صالح و فاسق میں کوئ تفریق نہیں۔ لیکن اس حیاتِ برزخی کے مختلف درجات ہیں، ایک درجہ تو سب کو عام اور شامل ہے، کچھ مخصوص درجے انبیاؑ و صالحینؒ کے لئے مخصوص ہیں، اور ان میں بھی باہمی تفاضل ہے۔

مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بیان القرآن میں تحریر فرمایا: ایسے مقتول کو جو الله کی راہ میں قتل کیا جائے شہید کہتے ہیں، اور اس کی نسبت گو یہ کہنا کہ وہ مر گیا صحیح اور جائز ہے، لیکن اس کی موت کو دوسرے مردوں کی سی موت سمجھنے کی ممانعت ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ گو مرنے کے بعد ہر شخص کی روح کو برزخی حیات حاصل ہے، اور اسی سے جزاء و سزا کا ادراک ہوتا ہے، لیکن شہید کو اس حیات میں اور مردوں سے ایک گونہ امتیاز ہے اور وہ امتیاز یہ ہے کہ اس کی یہ حیات آثار میں اوروں سے قوی ہے۔ 

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ

No comments:

Post a Comment