Wednesday 28 December 2016

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِى ٱلۡأَرۡضِ حَلَـٰلاً۬ طَيِّبً۬ا وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٲتِ ٱلشَّيۡطَـٰنِ‌ۚ إِنَّهُ ۥ لَكُمۡ عَدُوٌّ۬ مُّبِينٌ O إِنَّمَا يَأۡمُرُكُم بِٱلسُّوٓءِ وَٱلۡفَحۡشَآءِ وَأَن تَقُولُواْ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعۡلَمُونَ O (سورة البقرة:۱۶۸۔۱۶۹)

"اے لوگو! زمین میں جو حلال پاکیزہ چیزیں ہیں وہ کھاؤ، اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ یقین جانو کہ وہ تمہارے لئے ایک کھلا ہوا دشمن ہے۔ وہ تو تم کو یہی حکم دے گا کہ تم بدی اور بے حیائ کے کام کرو اور الله کے ذمے وہ باتیں لگاؤ جن کا تمہیں علم نہیں ہے۔ (سورة البقرة: ۱۶۸۔۱۶۹)

(مشرکینِ عرب کی ایک گمراہی یہ تھی کہ انہوں نے کسی آسمانی تعلیم کے بغیر مختلف چیزوں کے بارے میں حلال و حرام کے فیصلے خود گھڑ رکھے تھے۔ مثلاً مردار جانور کو کھانا ان کے نزدیک جائز تھا، مگر بہت سے حلال جانوروں کو انہوں نے اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا۔ یہ آیات ان کی اسی گمراہی کی تردید میں نازل ہوئ ہیں۔) 

لفظ "حلَّ " کے اصلی معنی گرہ کھولنے کے ہیں۔ جو چیز انسان کے لئے حلال کر دی گئ گویا ایک گرہ کھول دی گئ اور پابندی ہٹا دی گئ۔ حضرت سہل بن عبدالله ؓ فرماتے ہیں کہ نجات تین چیزوں میں منحصر ہے، ۱۔ حلال کھانا، ۲۔ فرائض ادا کرنا، ۳۔ رسول الله ﷺ کی سنّت کا اتّباع کرنا۔

لفظ "طیّب" کے معنی ہیں پاکیزہ جس میں شرعی حلال ہونا بھی داخل ہے اور طبعی مرغوب ہونا بھی۔ 

"ٱلسُّوٓءِ وَٱلۡفَحۡشَآءِ"، "سوء" وہ چیز جس کو دیکھ کر عقلمند و شریف آدمی کو دکھ ہو۔ "فحشاء" ، بے حیائ کا کام۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ اس جگہ سوء سے مراد مطلق معصیت اور فحشاء سے مراد کبیرہ گناہ ہے۔ 

"إِنَّمَا يَأۡمُرُكُم" شیطان کے امر اور حکم کرنے سے مراد دل میں وسوسہ ڈالنا ہے، جیسا کہ حضرت عبدالله بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ آدم کے بیٹے کے قلب میں ایک شیطانی الہام و اثر ہوتا ہے اور دوسرا فرشتہ کی جانب سے۔ شیطانی وسوسہ کا اثر یہ ہوتا ہے کہ برے کام کرنے کے فوائد اور مصالح سامنے آتے ہیں، اور حق کو جھٹلانے کی  راہیں کھلتی ہیں، اور الہام ِ فرشتہ کا اثر خیر اور نیکی پر انعام و فلاح کے وعدے اور حق کی تصدیق پر قلب کا مطمئن ہونا ہوتا ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیع ؒ

No comments:

Post a Comment