Monday 19 December 2016

كَمَآ أَرۡسَلۡنَا فِيڪُمۡ رَسُولاً۬ مِّنڪُمۡ يَتۡلُواْ عَلَيۡكُمۡ ءَايَـٰتِنَا وَيُزَكِّيڪُمۡ وَيُعَلِّمُڪُمُ ٱلۡكِتَـٰبَ وَٱلۡحِڪۡمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمۡ تَكُونُواْ تَعۡلَمُونَ (سورة البقرة:۱۵۱)

"ہم نے تمہارے درمیان تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہارے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کرتا ہے، اور تمہیں پاکیزہ بناتا ہے، اور تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔"

حضرت ابراہیمؑ نے کعبے کی تعمیر کے وقت دو دعائیں کی تھیں: ایک یہ کہ ہماری نسل سے ایسی امّت پیدا فرمائیے جو آپ کی مکمّل فرماں بردار ہو۔ اور دوسری یہ کہ ان میں ایک رسول بھیجیے۔ الله تعالیٰ نے پہلی دعا اس طرح قبول فرمائ کہ امّتِ محمدیہ (علیٰ صاحبہا السلام) کو "معتدل امّت" قرار دے کر پیدا فرمایا۔ اس آیت میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری دعا قبول کرتے ہوئے رسول اکرم ﷺ کو تمہارے درمیان بھیج دیا ہے جو انہی خصوصیات اور فرائضِ منصبی کے حامل ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے لئے مانگے تھے۔

ان میں سے پہلا فریضہ تلاوتِ آیات ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی آیات کو تلاوت کرنا بذاتِ خود ایک مقصد اور ایک نیکی ہے، خواہ وہ تلاوت بغیر سمجھے کی جائے، کیونکہ قرآن کے معنی کی تعلیم آگے ایک مستقل فریضے کے طور پر بیان کی گئ ہے۔ 

دوسرا مقصد قرآن کریم کی تعلیم ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی تعلیم کے بغیر قرآن کریم کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا ممکن نہیں، اور یہ کہ صرف ترجمہ پڑھ لینے سے قرآن کریم کی صحیح سمجھ حاصل نہیں ہو سکتی، کیونکہ اہلِ عرب عربی زبان سے خوب واقف تھے، انہیں ترجمہ سکھانے کے لئے کسی استاد کی ضرورت نہیں تھی۔ 

آپ کا تیسرا فریضہ یہ بتایا گیا ہے کہ آپ حکمت کی تعلیم دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکمت، دانائ اور عقلمندی وہی ہے جو آنحضرت ﷺ نے تلقین فرمائ۔ اس سے نہ صرف آپ کی احادیث کا حجّت ہونا معلوم ہوتا ہےبلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر آپ کا کوئ حکم کسی کو اپنی عقل کے لحاظ سے حکمت کے خلاف محسوس ہو تو اعتبار اس کی عقل کا نہیں، بلکہ آنحضرت ﷺ کی سکھائ ہوئ حکمت کا ہے۔

چوتھا فریضہ یہ بتایا گیا ہے کہ آپ لوگوں کو پاکیزہ بنائیں۔ اس سے مراد آپ کی عملی تربیت ہے جس کے ذریعے آپ نے صحابہٴ کرام کے اخلاق اور باطنی صفات کو گندے جذبات سے پاک کر کے انہیں اعلیٰ درجے کی خصوصیات سے آراستہ فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن و سنّت کا صرف کتابی علم بھی انسان کی اصلاح کے لئے کافی نہیں ہے جب تک اس نے اس علم کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی عملی تربیت نہ لی ہو۔ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو اپنی صحبت سے سرفراز فرما کر ان کی تربیت فرمائ، پھر صحابہ نے تابعین کی، اور تابعین نے تبع تابعین کی اسی طرح تربیت کی، اور یہ سلسلہ صدیوں سے اسی طرح چلا آتا ہے۔ باطنی اخلاق کی اسی تربیت کا علم "علمِ احسان" یا تزکیہ کہلاتا ہے اور تصوّف بھی درحقیقت اسی علم کا نام تھا۔ اگرچہ بعض نا اہلوں نے اس میں غلط خیالات کی ملاوٹ کر کے بعض مرتبہ اسے خراب بھی کر دیا، لیکن اس کی اصل یہی تزکیہ ہے جس کا ذکر قرآن کریم نے یہاں فرمایا ہے، اور ہر دور میں تصوّف کی اصل حقیقت کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے والے ہمیشہ موجود رہے ہیں۔

ماخوذ از آسان ترجمہٴ قرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد تقی عثمانی ؒ

No comments:

Post a Comment