Saturday 31 December 2016

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ٱتَّبِعُواْ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ قَالُواْ بَلۡ نَتَّبِعُ مَآ أَلۡفَيۡنَا عَلَيۡهِ ءَابَآءَنَآ‌ۗ أَوَلَوۡ كَانَ ءَابَآؤُهُمۡ لَا يَعۡقِلُونَ شَيۡـًٔ۬ا وَلَا يَهۡتَدُونَ O (سورة البقرة:۱۷۰)

"اور جب ان (کافروں) سے کہا جاتا ہے کہ اس کلام کی پیروی کرو جو الله نے اتارا ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں! ہم تو ان باتوں کی پیروی کریں گے جن پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے۔ بھلا کیا اس صورت میں  بھی جب ان کے باپ دادے ذرا بھی سمجھ نہ رکھتے ہوں، اور انہوں نے کوئ ہدایت بھی حاصل نہ کی ہو؟" (سورة البقرة:۱۷۰)

اس آیت سے جس طرح باپ دادوں کی اندھی تقلید و اتّباع کی مذمّت ثابت ہوئ اسی طرح جائز تقلید و اتّباع کے شرائط اور ایک ضابطہ بھی معلوم ہو گیا جس کی طرف دو لفظوں میں اشارہ فرمایا ہے لَا يَعۡقِلُونَ اور لَا يَهۡتَدُونَ، کیونکہ اس سے معلوم ہوا کہ ان آباؤ اجداد کی تقلید کو اس لئے منع کیا گیا ہے کہ انہیں نہ عقل تھی اور نہ ہدایت۔ ہدایت سے مراد وہ احکام ہیں جو الله تعالیٰ کی طرف سے صریح طور پر نازل کئے گئے، اور عقل سے مراد وہ جو بذریعہ اجتہاد نصوصِ شرعیہ سے استنباط کئے گئے۔ تو وجہ ان کے اتّباع و تقلید کے عدم جواز کی یہ ہوئی کہ نہ ان کے پاس الله تعالیٰ کی طرف سے نازل کئے ہوئے احکام ہیں اور نہ اس کی صلاحیت کہ الله تعالیٰ کے فرمان سے احکام نکال سکیں۔ اس میں اشارہ پایا گیا کہ جس عالم کے متعلّق یہ اطمینان ہو جائے کہ اس کے پاس قرآن و سّت کا علم ہے، اور اس کو درجہٴ اجتہاد بھی حاصل ہے کہ جو احکام قرآن و سنّت میں صراحتہًً نہ ہوں ان کو نصوص، قرآن و سنّت سے بذریعہ قیاس نکال سکتا ہے، تو ایسے عالم مجتہد کی تقلید و اتّباع جائز ہے۔ یہ اس لئے نہیں کہ اس کا حکم ماننا مقصود ہے، بلکہ حکم تو الله ہی کا ماننا مقصود ہے لیکن جس انسان کے پاس نہ الله کے احکام کا براہِ راست علم ہو، اور نہ ہی اس میں اس بات کی اہلیت ہو کہ الله تعالیٰ کے کلام سے خود احکامات نکال سکے، اس کے پاس سوائے کسی معتبر عالم مجتہد کے اتّباع کے اور چارہ ہی کیا ہے۔ 

امام قرطبیؒ نے اسی آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اس آیت میں آباء کی تقلید کے ممنوع ہونے کا جو ذکر ہے اس سے مراد باطل عقائد و اعمال میں آباء و اجداد کی تقلید کرنا ہے۔ صحیح عقائد اور اعمال ِِ صالحہ میں تقلید کی ممانعت اس آیت کے مفہوم میں داخل نہیں، جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے کلام میں ان دونوں باتوں کی وضاحت سورہٴ یوسف میں اس طرح آئ ہے:

إِنِّى تَرَكۡتُ مِلَّةَ قَوۡمٍ۬ لَّا يُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ وَهُم بِٱلۡأَخِرَةِ هُمۡ كَـٰفِرُونَ O وَٱتَّبَعۡتُ مِلَّةَ ءَابَآءِىٓ إِبۡرَٲهِيمَ وَإِسۡحَـٰقَ وَيَعۡقُوبَ‌ۚ
"میں نے ان لوگوں کی ملّت و مذہب کو چھوڑ دیا جو الله پر ایمان نہیں رکھتے، اور جو آخرت کے منکر ہیں، اور میں نے اتّباع کیا اپنے آباء ابراہیمؑ، اسحٰقؑ اور یعقوبؑ کا "

اس میں پوری وضاحت سے ثابت ہو گیا کہ آباء کی تقلید باطل میں حرام ہے لیکن حق میں جائز بلکہ مستحسن ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، از مفتی محمد شفیعؒ

No comments:

Post a Comment