Thursday 8 December 2016

سورة البقرہ:۱۳۷

"اس کے بعد اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم ایمان لائے ہو تو یہ راہِ راست پر آ جائیں گے۔ اور اگر یہ منہ موڑ لیں تو درحقیقت وہ دشمنی میں پڑ گئے ہیں۔۔۔" 

اس آیت میں "امنتم" کے مخاطب رسولِ کریم ﷺ اور صحابہٴ کرام رضی الله عنہما ہیں۔ اس آیت میں ان کے ایمان کو ایک مثالی نمونہ قرار دے کر حکم دیا گیا ہے کہ الله تعالیٰ کے نزدیک مقبول و معتبر صرف اس طرح کا ایمان ہے جو رسول الله ﷺ اور صحابہٴؓ نے اختیار فرمایا۔ جو اعتقاد اس سے سرِ مو مختلف ہو وہ الله کے نزدیک مقبول نہیں۔ 

توضیح اس کی یہ ہے کہ جتنی چیزوں پر یہ حضرات ایمان لائے ان میں کوئ کمی زیادتی نہ ہو۔ اور جس طرح اخلاص کے ساتھ ایمان لائے اس میں کوئ فرق نہ آئے کہ وہ نفاق میں داخل ہے۔ اور الله تعالیٰ کی ذات و صفات، فرشتے، انبیاء و رسل، آسمانی کتابیں اور ان کی تعلیمات کے متعلّق جو ایمان و اعتقاد رسول الله ﷺ نے اختیار کیا وہی الله کے نزدیک مقبول ہے۔ اس میں کوئ تاویل کرنا یا کوئ دوسرے معنی مراد لینا الله کے نزدیک مردود ہے۔ فرشتوں اور انبیاٴ و رسل کے لئے جو مقام آپ ؐ کے قول و عمل سے واضح ہوا اس سے ان کو گھٹانا یا بڑھانا ایمان کے منافی ہے۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیع ؒ

No comments:

Post a Comment