Monday 19 December 2016

وَلَنَبۡلُوَنَّكُم بِشَىۡءٍ۬ مِّنَ ٱلۡخَوۡفِ وَٱلۡجُوعِ وَنَقۡصٍ۬ مِّنَ ٱلۡأَمۡوَٲلِ وَٱلۡأَنفُسِ وَٱلثَّمَرَٲتِ‌ۗ وَبَشِّرِ ٱلصَّـٰبِرِينَ (١٥٥) ٱلَّذِينَ إِذَآ أَصَـٰبَتۡهُم مُّصِيبَةٌ۬ قَالُوٓاْ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيۡهِ رَٲجِعُونَ (١٥٦) سورة البقرة

"اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) کچھ خوف سے، اور (کبھی) بھوک سے، اور (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے۔ اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئ مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ "ہم سب الله ہی کے ہیں، اور ہم کو الله ہی کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔"

اس آیت میں ساری امّت کو خطاب کیا گیا ہے۔ اس سے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا دارالامتحان ہے، یعنی محنتوں اور تکلیفوں کی جگہ ہے۔ اگر انسان اس بات کو ذہن میں رکھے اور یہاں کے حوادث کو عجیب اور بعید نہ سمجھے (یعنی اگر کوئ مشکل آئے تو یہ نہ سوچے کہ میرے اوپر مشکل کیوں آ گئ اور نہیں آنی چاہئے تھی، اور نہ یہ سوچے کہ مشکلیں تو دوسروں کے لئے ہیں، میرے اوپر کیوں پیش آ گئیں) تو بےصبری نہ ہو گی۔ چونکہ مشکلیں تو سب پر آتی ہیں اور نفسِ عمل صبر میں سب مشترک ہیں، اس لئے اس کا صلہٴ مشترکہ تو عام رحمت ہے۔ اور چونکہ ہر صابر کے صبر کی مقدار اور شان اور خصوصیت الگ ہے اس لئے ان خصوصیات کا صلہ جدا جدا خاص عنایتوں سے ہو گا۔

حصہ دوئم

اس آیت میں صابرین کی طرف نسبت کر کے یہ جو کہا گیا ہے کہ وہ مصیبت کے وقت انا لله و انا علیہ راجعون کہا کرتے ہیں، حقیقت میں مقصود اس کی تعلیم سے یہ ہے کہ جس انسان کو مصیبت کا سامنا ہو اس کو ایسا کہنا چاہئے، کیونکہ ایسا کہنے میں ثواب بھی بڑا ہے اور اگر یہ الفاظ دل سے سمجھ کر کہے جائیں (ہم سب الله ہی کے ہیں اور ہم کو الله ہی کی طرف لوٹ کے جانا ہے) تو غم و رنج کے دور کرنے اور قلب کو تسکین پہنچانے کے لئے یہ الفاظ بہترین علاج ہیں۔

ماخوذ از معارف القرآن، تفسیرِ سورة البقرة، از مفتی محمد شفیعؒ

No comments:

Post a Comment